19

معاشی خوف اور نظام کی سست روی: چھوٹے کاروباروں پر ٹیکس کا بوجھ

وفاقی بورڈ آف ریونیو (FBR) کی جانب سے محصولات میں اضافے کی بھاری ذمہ داری ہر سال کی طرح ایک بار پھر سب سے زیادہ باضابطہ اور معاشی طور پر کمزور سمجھے جانے والے طبقے، یعنی چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد (SMEs) کے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔ اس طبقے پر انکم ٹیکس کی شرح میں 5% سے 15% تک کا غیر معمولی اضافہ، ملک کی معاشی ترقی کی ریڑھ کی ہڈی کو کھوکھلا کرنے کے مترادف ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کاروبار پہلے ہی مہنگائی، بجلی کے نرخوں اور شرحِ سود کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، ٹیکس کی شرح میں یہ اضافہ ان کے منافع اور بقا پر براہ راست حملہ ہے۔ چھوٹے کاروبار پاکستان کی معیشت میں ملازمتوں کی فراہمی اور پیداوار کے لحاظ سے ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا زیادہ تر ریکارڈ بینکوں اور سپلائی چین کے ذریعے باضابطہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے FBR کے لیے ان سے ٹیکس وصول کرنا سب سے آسان ہو جاتا ہے۔ FBR، بڑے نان فائلرز یا ٹیکس چوروں کو نیٹ میں لانے کی مشکل کوشش کے بجائے، ہمیشہ کی طرح آسان ہدف یعنی رجسٹرڈ چھوٹے کاروباریوں کو نچوڑنے کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ ٹیکس کی شرح میں یہ بے تحاشا اضافہ نہ صرف ان کے کاروباری سرمائے کو کم کرتا ہے، بلکہ مارکیٹ میں اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بھی بنتا ہے، جس کا حتمی بوجھ عام صارف پر پڑتا ہے۔ٹیکس کی شرح میں اضافے سے بھی زیادہ خطرناک چیز پالیسیوں اور قوانین کا عدم استحکام ہے۔ ملک میں ٹیکس نظام کی مستقل اور واضح پالیسیوں کا فقدان ہے۔ ہر سال بجٹ میں انکم ٹیکس قوانین کو اس طرح تبدیل کیا جاتا ہے کہ کاروباری منصوبہ بندی کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ان غیر یقینی حالات کا سب سے بڑا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کاروباری افراد حکومتی ٹیکس نیٹ کا حصہ بننے سے ڈرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ایک بار نیٹ میں شامل ہونے کے بعد، وہ آسان ہدف بن جائیں گے اور ان پر ہر سال نیا ٹیکس بوجھ ڈال دیا جائے گا، ساتھ ہی ٹیکس آڈٹ اور نوٹسز کا خوف بھی لاحق رہے گا۔ اس خوف کی وجہ سے معیشت کا ایک بڑا حصہ غیر دستاویزی (Undocumented) رہنا پسند کرتا ہے، جس سے FBR کا ٹیکس بیس کبھی وسیع نہیں ہو پاتا اور معیشت کی ترقی کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔ایک طرف حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانے کا دعوی کرتی ہے تو دوسری طرف اس کا اپنا آن لائن نظام ‘آئرس’ (IRIS) ہر سال آخری تاریخ کے قریب دم توڑ جاتا ہے۔ یہ سافٹ ویئر محض ایک تکنیکی سہولت نہیں بلکہ ٹیکس نظام کی اہلیت کا پیمانہ ہے۔ ریٹرن فائل کرنے کی آخری تاریخوں پر IRIS پورٹل پر لاگ اِن ہونا اور ڈیٹا اپ لوڈ کرنا ایک مشکل کام بن جاتا ہے۔ سسٹم کی سست روی اور بار بار کی تکنیکی خرابیاں ہی دراصل ہر سال ریٹرن فائل کرنے کی تاریخ میں توسیع کا اصل سبب بنتی ہیں، جس کی ذمہ داری FBR کے آئی ٹی ونگ کی نااہلی پر عائد ہوتی ہے۔ مزید برآں، ریٹرن فارمز میں آخری لمحات میں غیر ضروری اور مبہم کالمز جیسے کہ اثاثوں کی مارکیٹ ویلیو کا تخمینہ طلب کرنا، فائلنگ کے عمل کو پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ یہ کالمز محض دکھاوے کے لیے شامل کیے جاتے ہیں کہ FBR نے نظام کو “بہتر” بنایا ہے، مگر عملی طور پر یہ تاخیر کا باعث بنتے ہیں۔جب چھوٹے کاروبار شدید ٹیکس بوجھ اور غیر فعال نظام سے تنگ آ جاتے ہیں تو وہ یا تو اپنا کام محدود کر دیتے ہیں، سرمایہ کاری روک دیتے ہیں یا پھر وہ بھی ٹیکس چوری کے طریقوں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ اس طرح حکومت کا مقصد فوت ہو جاتا ہے: اسے زیادہ ٹیکس بھی نہیں ملتا اور ملک کا سب سے بڑا کاروباری طبقہ معاشی سست روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ شفافیت، استحکام اور سادگی کے بغیر محصولات میں اضافہ ایک سراب کے سوا کچھ نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں