16

پاکستانی سائنس دانوں کاعالمی سطح پر بڑا اعزاز

اسلام آباد (بیوروچیف) پاکستان نے صحت، تعلیم، زراعت سمیت مختلف شعبوں میں نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے دنیا کے 2فیصد سب سے زیادہ حوالہ دیے جانے والے سائنسدانوں کی فہرست میں کئی محققین کو شامل کروا لیا ہے۔اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی سال 2024کی فہرست کے مطابق پاکستان کی آغا خان یونیورسٹی، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST)، کومسٹس یونیورسٹی اسلام آباد، بہائو الدین زکریا یونیورسٹی، عبدالولی خان یونیورسٹی مردان، قائداعظم یونیورسٹی، اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور سمیت دیگر یونیورسٹیوں کے متعدد اسکالرز اس فہرست میں شامل ہیں۔فہرست میں پاکستان کے اساتذہ کے ساتھ سابق طلبہ بھی شامل ہیں۔ شامل محققین کی تحقیق ترقی پذیر دنیا میں صحت، تعلیم اور دیگر اہم شعبوں کی ترقی میں معاون ثابت ہوئی ہے۔یہ سالانہ فہرست دنیا کے معتبر عالمی معیار پر مبنی سمجھی جاتی ہے۔ فہرست میں ڈاکٹر ذوالفقار اے بھٹہ، ڈاکٹر سلیم ایس ویرانی، ڈاکٹر رومینہ اقبال اور ڈاکٹر جے کمار داس سمیت کئی نام شامل ہیں۔ڈاکٹر سلیم ایس ویرانی نے کہا کہ ہمیشہ جدید تحقیقی سہولیات میں سرمایہ کاری کی گئی ہے اور معیار و جدت کے لیے دنیا کے سرکردہ اداروں کے ساتھ تعاون کو فروغ دیا گیا ہے۔یہ محققین یا تو کیریئر لائف ٹائم اثر (Career-Long Impact) یا ایک حالیہ سال کے اثر (Single Recent Year Impact) کی بنیاد پر دنیا کے ٹاپ 2 فیصد سائنسدانوں میں شامل کیے گئے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار اے بھٹہ آغا خان یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف ٹورنٹو (کینیڈا) سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کام عالمی صحت (Global Health) اور زچہ و بچہ کی صحت (Maternal & Child Health) پر مرکوز ہے۔انہوں نے زچہ و بچہ کی شرح اموات اور بیماریوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں اور جنوبی ایشیا میں بچوں کی غذائیت کی کمی اور اس کے حل پر رہنمائی فراہم کی ہے۔ ان کی تحقیق WHOاور UNICEFسمیت دیگر عالمی اداروں کی پالیسیوں میں استعمال ہوتی ہے۔پروفیسر ڈاکٹر سلیم ایس ویرانی ماہر امراض قلب ہیں اور ان کا کام دل کی بیماریوں کی روک تھام، خاص طور پر کولیسٹرول اور لپڈ مینجمنٹ پر مرکوز ہے۔پروفیسر ڈاکٹر رومینہ اقبال آغا خان یونیورسٹی سے تعلق رکھتی ہیں اور انہوں نے دل کی بیماریوں، ذیابیطس اور دیگر غیر متعدی بیماریوں پر جنوبی ایشیا میں خوراک اور جسمانی سرگرمی کے اثرات کا مطالعہ کیا ہے۔پروفیسر ڈاکٹر جے کمار داس کا کام WHO اور دیگر عالمی تنظیموں کے لیے ماں اور بچے کی دیکھ بھال کی سفارشات کو تقویت دیتا ہے۔یہ فہرست صحت اور تعلیم تک محدود نہیں بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف شعبے بھی شامل ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) کے 43 محققین، یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد کے متعدد محققین، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے 43 سائنسدان، پنجاب یونیورسٹی کے 42 سائنسدان، اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور کے 41 سائنسدان اور قائداعظم یونیورسٹی کے 40 سائنسدان اس فہرست میں شامل ہیں۔آغا خان یونیورسٹی کے 25 سے زائد سائنسدان، کومسٹس یونیورسٹی اسلام آباد کے متعدد محققین، بہا الدین زکریا یونیورسٹی کے 22 سائنسدان اور عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے 20 سائنسدان بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔یہ درجہ بندی ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان میں زراعت، انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی میں تحقیق عالمی معیار کی ہے، جبکہ صحت اور میڈیکل سائنسز میں محققین کی شمولیت ترقی پذیر دنیا کے لیے اہم اثاثہ ہے۔اس فہرست سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ تحقیقی ایکسیلنس کسی ایک شہر یا صوبے تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے مختلف جامعات میں پھیلی ہوئی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں