22

پنجاب اور بااختیار خواتین

پنجاب میں خواتین کی حکمرانی کی تاریخ زیادہ طویل نہیں رہی، کیونکہ برصغیر میں عمومی طور پر پدرشاہی نظام غالب رہا ہے۔ تاہم، چند نمایاں مثالیں ملتی ہیں جن میں خواتین نے براہِ راست یا بالواسطہ طور پر پنجاب کی سیاست اور اقتدار پر اثر ڈالا’ رانی جھانسی (لکشمی بائی) کا نام سب سے پہلے قابل ذکر ہے۔ اگرچہ وہ بنیادی طور پر جھانسی (مرکزی بھارت) کی حکمران تھیں، مگر 1857 کی جنگِ آزادی کے دوران پنجاب کے کئی حصوں میں ان کی جدوجہد نے خواتین کی شمولیت کو متاثر کیا۔ ان کا اصل نام منیکرنیکا تامبے تھا۔ جو 19نومبر 1828، کاشی (وارانسی ، بھارت) میں پیدا ہوئیں اور رانی جھانسی کے نام سے مشہور ہوئیں۔براہمن خاندان سے تعلق تھا کم عمری میں ہی گھوڑ سواری، نیزہ بازی اور تیر کمان کی تربیت حاصل کی۔ یہ اوصاف اس دور کی خواتین میں نایاب تھے۔ 1857کی جنگِ آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔ رانی جھانسی نے انگریزوں کی پالیسی کو چیلنج کیا اور جھانسی کی آزادی کے لیے اپنی باقاعدہ فوج تیار کی۔ انہوں نے مردوں کے شانہ بشانہ میدانِ جنگ میں تلوار تھامی اور بہادری سے لڑیں۔ ان کا نعرہ تھا کہ میں اپنی جھانسی نہیں دوں گی۔ 17جون 1858 کو گوالیار کے قریب برطانوی فوج سے لڑتے ہوئے شہید ہوئیں۔ اپنی بہادری اور قربانی کے باعث انہیں آج بھی “ہندوستان کی جون آف آرک (Joan of Arc)” کہا جاتا ہے۔ سکھ دورِ حکومت میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد لاہور دربار میں مہارانی جنداں (رانی جندان کور)نے کچھ عرصے تک تختِ لاہور پر بطور ریجنٹ (Regent)اثر و رسوخ قائم رکھا۔ انہیں “مادرِ پنجاب” بھی کہا جاتا ہے۔ مہارانی جِنداں (جنکا پورا نام مہارانی جند کور تھا) مہاراجہ رنجیت سنگھ (سکھ سلطنت کے بانی)کی سب سے کم عمر اور آخری بیوی تھیں۔ وہ پنجاب کی تاریخ میں نہایت اہم مقام رکھتی ہیں کیونکہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات (1839)کے بعد جب سکھ سلطنت کمزور ہوئی تو انہوں نے بڑی جرأت اور حکمت کیساتھ اپنے نو عمر بیٹے مہاراجہ دلیپ سنگھ کی سرپرستی اور سلطنت کی نگہبانی کی۔ دلیپ سنگھ کی کم عمری کے باعث مہارانی جنداں کو سرپرست و ریجنٹ بنایا گیا۔ انہوں نے دربار کی سیاست پر بھرپور گرفت رکھی اور انگریزوں کی توسیعی پالیسیوں کے خلاف سخت موقف اپنایا۔ ان کے حوصلے اور ذہانت کے باعث انہیں مورنی آف پنجاب اور کبھی انگلیوں پر سلطنت چلانے والی رانی کہا جاتا ہے۔ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے سکھ سلطنت کو اپنے زیرِ اثر لانے کی کوششیں تیز کر دیں۔ مہارانی جنداں انگریزوں کی سب سے بڑی رکاوٹ تھیں کیونکہ وہ کھلم کھلا انگریز دشمنی کا اظہار کرتی تھیں۔ 1846کی پہلی سکھ جنگ کے بعد برطانوی حکومت نے ان کی سیاسی طاقت کم کر دی اور انہیں ریجنسی سے ہٹا دیا۔ 1847 میں انہیں لاہور دربار سے الگ کر کے قید میں رکھا گیا، پھر چندی گڑھ اور شیخوپورہ بھیج دیا گیا۔ 1849میں جب پنجاب مکمل طور پر انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا تو دلیپ سنگھ کو انگلینڈ بھیج دیا گیا۔ مہارانی جنداں کو بھی سخت نگرانی میں رکھا گیا لیکن بعد میں وہ نیپال چلی گئیں۔ 1861میں انہیں اپنے بیٹے دلیپ سنگھ سے انگلینڈ میں ملنے کی اجازت ملی۔ 1863میں ان کا انتقال ہو گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد پنجاب میں براہِ راست کسی خاتون نے گورنر یا وزیراعلی کے طور پر طویل مدت تک حکمرانی نہیں کی، تاہم خواتین سیاست دانوں نے صوبائی و وفاقی سطح پر نمایاں کردار ادا کیا۔ بیگم نصرت بھٹو بطور خاتونِ اول اور پیپلز پارٹی کی شریک چیئرپرسن، پنجاب کی سیاست میں فعال رہیں۔بیگم نصرت بھٹو (1929 2011.) پاکستان کی ایک ممتاز سیاسی و سماجی شخصیت تھیں۔ وہ پاکستان کے سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی والدہ تھیں۔ نصرت بھٹو نے نہ صرف اپنے شوہر کے ساتھ سیاسی جدوجہد میں بھرپور ساتھ دیا بلکہ ان کی پھانسی کے بعد بھی ان کی سیاسی وراثت کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ان کی شادی 1951 میں ذوالفقار علی بھٹو سے ہوئی۔ 1977میں جنرل ضیاء الحق کی مارشل لا حکومت نے ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ہٹا دیا۔ اس موقع پر نصرت بھٹو نے جمہور یت کے حق میں آواز بلند کی اور سیاسی میدان میں براہِ راست سرگرم ہوئیں۔ انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کر کے موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی (MRD)میں فعال کردار ادا کیا۔ جنرل ضیا کے دور میں وہ کئی بار گرفتار ہوئیں، جیل اور نظر بندی برداشت کی۔ 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد نصرت بھٹو کو پاکستان پیپلز پارٹی کی قائم مقام چیئرپرسن بنایا گیا۔ ان کا انتقال 23اکتوبر 2011، کو دبئی میں ہوا۔ بے نظیر بھٹو اگرچہ وہ براہِ راست سندھ سے تعلق رکھتی تھیں، لیکن پنجاب میں ان کی سیاسی جدوجہد اور قیادت نے خواتین کے لیے سیاسی میدان کھولا۔بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی اور عالمِ اسلام کی پہلی خاتون وزیرِاعظم تھیں۔ وہ 21 جون 1953 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے سابق وزیرِاعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی تھے۔ والد کی پھانسی کے بعد وہ پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالنے پر مجبور ہوئیں اور ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں جیل اور نظر بندی بھی برداشت کی۔ عوامی جدوجہد کے نتیجے میں 1988میں عام انتخابا ت کے بعد وہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِاعظم منتخب ہوئیں۔ انہوں نے دو بار وزارتِ عظمی کا منصب سنبھالا (1988-1990اور 1993-1996) ۔ ان کے دورِ حکومت میں خواتین کے حقوق، تعلیم، صحت اور جمہوریت کے فروغ کے لیے کئی اقدامات کیے گئے۔ 27دسمبر 2007کو راولپنڈی میں ایک عوامی جلسے کے دوران دہشت گرد حملے میں وہ شہید ہو گئیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف قید یا جلاوطنی میں تھے، تو ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز نے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی تحریک کی قیادت کی ۔ وہ 29 مارچ 1950 کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے فارمین کرسچین کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ سیاسی میدان میں وہ اس وقت نمایاں ہوئیں جب 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا نافذ کیا۔ اس مشکل وقت میں انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت سنبھالی اور جمہوریت کی بحالی کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔ بیگم کلثوم نواز نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور جمہوری عمل کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم رہیں۔ وہ 2017 میں لاہور کے حلقہ NA-120 سے رکنِ قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئیں، تاہم بیماری کے باعث وہ عملی طور پر سیاست میں زیادہ سرگرم نہ رہ سکیں۔ بیگم کلثوم نواز 11ستمبر 2018کو لندن میں انتقال کر گئیں۔ مریم نواز شریف آج کے دور میں پنجاب کی سیاست میں سب سے نمایاں خاتون رہنما ہیں۔ 2024 کے عام انتخابات کے بعد پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلی منتخب ہوئیں۔ یہ صوبہ پنجاب میں پہلی مرتبہ ہے کہ ایک خاتون نے براہِ راست چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا۔مریم نواز شریف پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی رہنما ہیں۔ وہ سابق وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف اور بیگم کلثوم نواز کی بیٹی ہیں۔ ان کی پیدائش 28 اکتوبر 1973 کو لاہور میں ہوئی۔ مریم نواز نے 2013 کے عام انتخابات کے بعد سیاسی طور پر فعال کردار ادا کرنا شروع کیا اور 2017 میں پانامہ کیس کے بعد نواز شریف کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ (ن) میں نمایاں حیثیت اختیار کر گئیں۔ انہوں نے انتخابی مہمات میں عوامی رابطوں اور تقاریر کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ انہیں مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر اور بعد ازاں چیف آرگنائزر کے طور پر اہم ذمہ داریاں دی گئیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی جدوجہد کے سلسلے میں قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔وہ خواتین کو سیاست میں بااختیار بنانے اور جمہوریت کے تسلسل کے لئے پرعزم ہیں توقع کی جاتی ہے کہ ان کے اس سلسلے میں کئے جانے والے اقدامات سے بااختیار خواتین کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا اور با اختیار خواتین ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں