ہر مسلمان کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی ذات گرامی سے جو نبوت کا سلسلہ شروع ہوا تھا وہ نبی کریم حضرت محمد صلی علیہ والی وسلم کی ذات گرامی پر ختم ہوگیا نبی کریم صلی علیہ والہ وسلم خاتم النبین ہیں آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آسکتا۔ آپ علیہ والہ وسلم نے شہادت والی انگلی اور برابر کھڑی کر کے بتایا کہ میں اور قیامت اسی طرح ہے جس طرح ان انگلیوں کے درمیان کوئی انگلی نہیں آ سکتی اسی طرح میرے اور قیامت کے بیچ میں کوئی نبی نہیں آسکتا اگر ان انگلیوں کے درمیان کوئی انگلی پھوٹ پڑے تو وہ انگلی نہیں بلکہ ناسور ہوگا۔ عقیدہ ختم نبوت مسلمانوں کی اصل روح اور اساس ہے’ ختم نبوت جزو ایمان ہے اور جو کوئی کسی بھی معنی میں اس کا انکار کرے وہ کافر، مرتد اور بالاتفاق دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ حضور صلی علیہ والہ وسلم پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا آپ صلی علیہ والہ وسلم نبی آخر الزماں ہیں قرآن پاک اور احادیث میں اس کا واضح اعلان موجود ہے آپ صلی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” میری امت میں تیس کذاب اور دجال پیدا ہوں گے ہر ایک یہ دعوی کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں” (ترمذی جلد دوئم ابواب الفتن) 7ستمبر کا دن پاکستان کے مسلمانوں کے لئے خصوصی طور پر اور دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے مسلمانوں کیلئے ایک یادگار اور تاریخی دن ہے یہ دن جب ہر سال ستمبر کے مہینے میں آتا ہے تو ہمیں اس تاریخ ساز فیصلے کی یاد دلاتا جو پاکستان کی قومی اسمبلی نے عقیدہ ختم نبوت کی حقانیت کا برملا اور متفقہ اعلان کرتے ہوئے جاری کیا تھا اسی عظیم اور تاریخ ساز فیصلے کی رو سے قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔ قومی اسمبلی نے جمہوری طریقے کے مطابق متفقہ طور پر بل پاس کیا۔اسود عنسی حضور اکرم صلی علیہ والہ وسلم کے حکم پر جہنم رسید ہوا۔ جبکہ مسیلمہ کذاب حضور اکرم صلی علیہ والہ وسلم کے اس دنیا فانی سے پردہ فرمانے کے بعد ایک بڑا لشکر بنانے میں کامیاب ہوگیا اس نے اپنے اعلان سے لوگوں کو گمراہ کیا کہ حضور اکرم صلی علیہ والہ وسلم نے اسے اپنی نبوت میں شریک کرلیا ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی علیہ والہ وسلم کے وصال کے بعد اور اپنی خلافت کے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود مسیلمہ کذاب کے خلاف جہاد کا اعلان کر کے لشکر کشی فرمائی ۔ چونکہ دوسری بہت سی جگہوں پر اس وقت اسلامی فوج مصروف تھی اور تمام جوان صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ان معرکوں میں شرکت کے لئے گئے ہوئے تھے اس لیے اس لشکر میں اصحاب بدر ، مفسر ، محدث ،حفاظ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تھے مسیلمہ کذاب کا لشکر 30 ہزار سے کچھ زائد تھا سخت قسم کا معرکہ ہوا ۔ اس موقع پر 12 سو سے زائد مزکورہ بالا صفات کے حامل صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی علیہ والہ وسلم کی نبوت کے تحفظ کے لیے قربان ہوگئے مسیلمہ کذاب اپنے لشکر سمیت جہنم رسید ہوکر گذشتہ زمانے کی ایک کہانی بن گیا۔ مرزا غلام احمد قادیانی کسی گمنام خاندان کا فرد نہیں تھا بلکہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتا تھا جس کا تذکرہ تاریخ کے صفحات میں موجود ھے سر لیپل گریفن نے اپنی کتاب “تاریخ رئیساں پنجاب” میں مرزا قادیانی کے خاندان کا قصہ بیان کیا جس کا اردو ترجمہ سید نوازش علی مترجم دفتر گورنر پنجاب نے 1911 میں سرکار کی اجازت سے کیا اس کتاب کی جلد دوئم صفحہ 44 پر مرزا قادیانی کے خاندان کا ذکر ہے جس سے معلو م ھوتا ہے کہ یہ خاندان سکھوں کے دوراقتدار میں بھی سکھوں کے ساتھ مل کر پنجاب کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں حریت پسند کے خلاف شمشیر بکف رہا جب انگریز پنجاب میں آئے اور سکھ دور زوال پذیر ہوا تو قادیانی کے اسلاف انگریزوں کے ساتھ مل کر ان حریت پسندوں کے خلاف بھی نبردآزما ہوگئے جو انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے لیے مصروف جہاد تھے۔ مرزا غلام احمد ولد مرزا غلام مرتضی رنجیت سنگھ کی فوج میں ملازم رہ کر مہا راجہ کی ہر فوجی مہم میں شامل ہوا۔ مرزا غلام احمد قادیانی میں “خاندانی نمک خوری ” کے اثرات کا اظہار بعد میں اس طرح ہوا کہ مرزا قادیانی نے بدیسی انگریزوں کے خلاف جہاد کو حرام قرار دے کر اور انگریزوں کی حکومت کو اللہ کا سایہ دار اور خود کو اس کا خود کاشتہ پودا قرار دیا ۔ مرزا قادیانی نے ابتدائی طور پر عیسائیوں اور آریوں سے مناظرے کی آڑ میں اپنے آپ کو مناظر اسلام کی حیثیت سے متعارف کروایا اور اس کے بعد جھوٹے دعوئوں کا سلسلہ شروع کردیا مسلمہ کذاب سے لر کر یحیی عین اللہ بہاری تک جتنے جھوٹے مدعیان نبوت ظاہر ہوئے انہوں نے امام مہدی ، مسیح موعود یا نبی ہونے کا دعوی کیا اور اس کے ذریعے قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کی مگر مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوں کو جب ہم دیکھتے ہیں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ذی شعور شخص بھی اس قسم کا دعوی نہیں کر سکتا۔ اس بنا پر گولڑہ شریف اور دیگر مکاتب فکر کے بڑے علمائے کرام نے قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کا فتوی جاری کیا۔ مرزا کی طرف مناظرے کا چیلنج کرتے ہوئے حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمتہ اﷲ علیہ نے اسے للکارا اور اس کے خلاف دو کتابیں ”شمس الہدایہ اور سیف چشتیائی” لکھی۔پیر طریقت امام وقت پیر مہر علی شاہ (رح) جب مرزا دجال کا مقابلہ کرنے گولڑہ سے چلے تو ان کا ایک مرید جو کہ انگریز کی سی آء ڈی میں تھا کہنے لگا کہ انگریز فیصلہ کر چکا ہے یا تو آپ کو مروا دے گا یا برصغیر سے نکال دے گا ملفوظات مہریہ میں یہ بات آپ نے خود لکھی ہے آپ نے سر مبارک اٹھایا آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا انگریزوں نے مجھے کیا نکالنا ہے لوح محفوظ پہ تو کچھ اور ہی لکھا ہے آپ مزید لکھتے ہیں کہ مجھے قریبی لوگوں نے اخلاص سے مشورہ دیا پر وہ اخلاص کا معنی نہ جانتے تھے یہ کونسا اخلاص ہوتا ہے کہ رسول اللہ کی ختم نبوت کا مسئلہ ہو اور مہر علی حالات کا رونا روتا رہے آپ جلال میں آئے تو فرمایا ہم سے ایسی بے غیرت فقیری نہیں ہوتی کہ منکر ختم نبوت لاہور میں للکارتا رہے اور مہر علی گولڑہ میں بیٹھا رہے (ملفوظات مہریہ) پھر اس اللہ کے شیر نے اکیلے اس سلطنت سے ٹکر لی جس کی ریاست میں سورج غروب نہ ہوتا تھا اور ساری دنیا کے سامنے کانے قادیانی کو بے نقاب کیا۔ 1952 میں جہانگیر پارک کراچی میں جب یہی بات مسلمانوں پر کھلی کہ یہ لوگ پاکستان میں قادیانیت جیسے بے دین مذہب کو پھیلانا چاہتے ہیں تو لوگ مشتعل ہوگئے یہاں سے 1953 میں تحریک ختم نبوت کا آغاز ہوا جس کی قیادت حضرت مولانا ابوالحسنات سید احمد قادری نے فرمائی ہزاروں نوجوان اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے سڑکوں پر نکل آئے جیلیں بھر گیئں۔ حکومت وقت نے بے بسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مارشل لا لگا دیا پھر ملک میں حکومت تبدیل ہوگئی اور قادیانیت دب گئی۔ 1973 میں آزاد کشمیر اسمبلی نے قادنیوں کو غیر مسلم قرارے کر بارش کے پہلے قطرے کا کام کیا۔ مئی 1974 میں نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ کا ایک گروپ سیروتفریح کی غرض سے چناب ایکسپریس سے پشاور جارہا تھا جب ٹرین ربوہ پہنچی تو قادیانیوں نے اپنے معمول کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی کی خرافات پر مبنی لٹریچر تقسیم کرنا شروع کر دیا نوجوان طلبہ اس سے مشتعل ہو گئے طلبہ اور قادیانیوں کے درمیان تو تکرار ہو گئی طلبہ نے ختم نبوت زندہ باد اور قادیانیت مردہ باد کے نعرے لگائے قادیانیوں نے اس وقت تو اس گروپ کو جانے دیا اور اپنے خفیہ ذرائع سے اس کی واپسی کی تاریخ کا پتہ لگوایا واپسی پر 29 مئی کو جب طلبہ ربوہ پہنچے تو قادیانی دیسی ہتھیاروں سے مسلح ہو کر طلبہ پر ٹوٹ پڑے اور طلبہ کو بے دردی سے مارنا پیٹنا شروع کر دیا طلبا لہو لولہان ہو گئے اور ان کا سامان لوٹ لیا گیا اس واقعے پر اسلامیان پاکستان کے احتجاج نے تاریخ ختم نبوت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو نئی جہت دی۔ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف علامہ رحمت اللہ ارشد نے اس واقعے پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا ختم نبوت کی دینی حیثیت کے متعلق تمام مسالک کے علما متفق ہیں کہ قادیاتی دائرہ اسلام سے خارج ہیں نوجون 1974 کو کل جماعتی مجلس عمل ختم نبوت کا اجلاس منعقد ہوا اجلاس میں شرکت کرنے والوں علما کرام میں مولانا شاہ احمد نورانی مولانا عبدالستار خان نیازی خاص طور پر قابل ذکر ہیں جبکہ نوابزادہ نصر اللہ خان اور دیگر بھی اس اجلاس میں شریک تھے 17 جون کو فیصل اباد میں تمام دینی اور سیاسی جماعتوں میں جمعیت علما پاکستان مجلس عمل کے قائدین مولانا شاہ احمد نورانی اور دیگر درجنوں علما کرام نے مجلس عمل کے مطابق مطالبات کی راہ ہموار کرنے کے لیے پورے ملک کے دورے کیے ختم نبوت کے مسئلہ پر عوام الناس کی اگاہی کے لیے مولانا شاہ احمد نورانی تقریبا 40 ہزار میل کا دورہ کیا قادیانی اس تحریک سے بلبلا اٹھے قومی اسمبلی کے اراکین جے یو پی کے صدر حضرت علامہ شاہ احمد نورانی حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری، مولانا سید محمد علی رضوی اور مولانا محمد ذاکر رحمت اللہ علیہ نے دلیرانہ گفتگو فرمائی۔ 30جون 1974 کو قومی اسمبلی میں مولانا شاہ احمد نورانی نے قرارداد پیش کی اس قرارداد پر 44ارکان نے دستخط کیے۔ قومی اسمبلی میں کہا گیا کہ اب اسمبلی کو یہ اعلان کرنے کی کاروائی کرنی چاہیے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکار انہیں چاہے کوئی بھی نام دیا جائے مسلمان نہیں اور یہ کہ قومی اسمبلی میں ایک سرکاری بل پیش کیا جائے تاکہ اس ایوان کو موثر بنانے کے لیے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر ان کا جائز حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے احکام وضع کرنے کی خاطر آئین میں مناسب اور ضروری ترمیمات کی جائیں”اس موقع پر مولانا شاہ احمد نورانی نے ایک گھنٹہ دس منٹ زبردست خطاب کیا جو ایوان میں ایک زلزلے کی حیثیت رکھتا ہے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا سرکاری ترمیمی بل مندرجہ ذیل ہیں۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی عوامی تحریک کے حوالے سے سات ستمبر 1974 کو شام چار بجے قومی اسمبلی کا ایک فیصلہ کن اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی منظوری سے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی ترمیمی بل کی منظوری کا اعلان کیا اس سرکاری ترمیمی بل کا متن مندرجہ ذیل ہے آئین پاکستان میں ترمیم کے لیے ایک بل ہرگاہ یہ قرین مصلحت ہے کہ بعد ازیں درج ذیل اغراض کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں مزید ترمیم کی جائے۔ لہذا بذریعہ ھذا حسب ذیل قانون وضع کیا جاتا ہے۔1۔ مختصر عنوان اور آغاز نفاذ : یہ ایکٹ آئین ( ترمیم دوم) ایکٹ 1974 کہلائے گا . نمبر دو یہ فی الفور نافذ عمل ہوگا۔2۔ آئین کی دفعہ 106 میں ترمیم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں جیسے بعد ازاں آئین کہا جائے گا دفعہ 106 کی شک تین میں لفظ فرقوں کے باد الفاظوں قوسین اور قادیانی جماعت یا لاہوری جماعت کے اشخاص( جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں )درج کیے جائیں گے3۔ آئین کی دفاع 260 میں ترمیم: آئین کی دفعہ 260 میں شک دو کے بعد حسب ذیل نء شق درج کی جائے گی۔ یعنی (3) جو شخص حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ ہ وسلم جو آخری نبی ہیں کہ خاتم النبیین ہونے پر غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا جو حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بعد کسی بھی مفہوم میں یا کسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے یا کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتے ہیں وہ آئین یا قانون کے اغراض کے لیے مسلمان نہیں۔ اسی روز تقریبا دو گھنٹے بعد سینٹ سے بھی پاس ہو گیا کل92گھنٹے بحث ہوئی۔ قادیانی جماعت کا سربراہ مرزا ناصر اور لاہوری گروپ کا سرغنہ مرزا صدر الدین اپنا دفاع کرنے کے لیے موجود تھے اس فیصلے کے فورا بعد50ہزار قادیانیوں نے اسلام قبول کیا۔ (روزنامہ نوائے وقت 20 دسمبر 1974)۔ بیان اغراض وجوہ: جب کہ تمام ایوان کی خصوصی کمیٹی کی سفارش کے مطابق قومی اسمبلی میں طے پایا ہے۔ اس بل کا مقصد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں اس طرح ترمیم کرنا ہے تاکہ ہر وہ شخص جو حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے خاتم النبین ہونے پر قطی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے یا جو کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح کو تسلیم کرتا ہے اسے غیر مسلم قرار دیا جائے۔ یوں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر حکومت وقت نے حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے اپنی وفاداری کا ثبوت دیا۔ مولانا شاہ احمد نورانی نے ایک انٹرویو کے دوران فرمایا تھا کہ چونکہ آللہ تعالی کی تائید و نصرت سے ہم مسلمان کی تعریف آئین میں شامل کرا چکے ہیں۔ پھر قادیانیوں کو کافر مرتد قرار دینے کی آئینی ترمیم سے اس کی تکمیل ہو گئی۔ بعد میں سعودی عرب، ملیشیا انڈونیشیا اور دیگر مسلم ممالک کی حکومتوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم کا درجہ دینا شروع کیا حتی کہ جنوبی افریقہ کی غیر مسلم عدالت نے بھی اس کی توثیق کی کہ قادیانی مسلم نہیں قادیانیوں پر مسجد کے نام پر اپنی عبادت گاہ بنانے پر پابندی عائد کر دی۔ صدر اور وزیراعظم کے حلف نامے میں ختم نبوت کا اقرار لازمی قرار دیا۔31 اگست سے یکم ستمبر 2024 کو انجمن طلبا اسلام نے کراچی سے ” تحفظ ختم نبوت ٹرین مارچ” مرکزی صدر برادر مبشر حسین حسینی کی قیادت میں شروع کیا جس کا انجمن طلبا اسلام اور سنی تنظیمات کے کارکنان نے ہر سٹیشن پر پھرپور استقبال کیا اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔ آئیے! ختم نبوت پر اپنے ایمان کو مضبوط کریں اس لیے کہ اس پر ایمان ہماری نجات کی ضمانت اور دین کا لازمی اور بنیادی تقاضہ ھے۔ قدم بڑھائیے۔ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو فروغ ، نظام مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے نفاذ اور مقام مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے تحفظ اور تحفظ ختم نبوت کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیں اسی میں ھماری فلاح ھے۔
9