76

این اے97 کا سیاسی احوال

تحریر ،عبدالحمید شفیقی
الیکشن 2024ء کا اعلان ہونے کے بعد پورے ملک کی طرح این اے97میں بھی سیاسی گہما گہمی شروع ہو گئی پرانے سیاسی خانوادے کے سپوتوں کے ساتھ ساتھ کچھ نئے امیدوار بھی سامنے آئے ہیں جن کا سابقہ سیاسی پس منظر تو نہیں مگر پاکستانی سیاست کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے اور قسمت آزمائی کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں نئے وارد ہونے والے سیاسی نوجوانوں کے حامیوں کا برملا کہنا ہے کہ اس الیکشن میں ہمارے امیدوار کی کامیابی تو یقینی نہیں مگر آئندہ الیکشن کے لئے انٹری ضرور ہو جائے گی اور ہمیں بھی پتہ چل جائے گا کہ علاقہ میں کئے گئے سماجی کاموں کے بدلے میں عوام انہیں کتنی پذیرائی بخشتی ہے کون سی شخصیات ان کے ساتھ مخلص اور کون کون لوگ صرف اپنے مفاد کی خاطر رابطہ کرتے اور ذاتی مفاد حاصل کرنے والوں میں سے ہیںالیکشن2024کے انعقاد میں تقریبا پندرہ دن باقی ہیں این اے97میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی طرف سے سابق ممبر قومی اسمبلی علی گوہر بلوچ ،پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کی طرف سے محمد خان ندیم بلوچ،استحکام پاکستان پارٹی سے ہمایوں اختر ہیں جبکہ سعداللہ خان بلوچ ہیں مگر ذولفقار علی وٹو بھی میدان میں ہیں۔ اگر ذوالفقار علی وٹو بھی قومی اسمبلی کا الیکشن لڑتے ہیں تو اس کا واضح نقصان سعداللہ بلوچ کو اٹھانا پڑسکتا ہے پاکستان مسلم لیگ نواز کی طرف سے مخصوص نشست پر رہنے والی سابق ممبر قومی اسمبلی عائشہ رجب بلوچ نے بھی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا مگر پارٹی سے ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی سے ناراض ہو کر سعداللہ بلوچ کے حق میں دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا جس کا واضح طور پر فائدہ علی گوہر بلوچ کو ہو گا کیونکہ ان کے الیکشن میں حصہ لینے کی وجہ سے ان کا ووٹ تقسیم ہونا تھا جو اب کسی حد تک کم ہو جائے گا سعداللہ بلوچ جو کہ گزشتہ الیکشن 2018میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے امیدوار قومی اسمبلی تھے نے علی گوہر کو ٹف ٹائم دیا تھا مگر علی گوہر بلوچ نے دس ہزار ووٹ کی واضح برتری سے کامیابی حاصل کی تھی کیونکہ الیکشن 2018 کے ضمنی انتخاب میں دونوں کے سوا تیسرا کوئی مضبوط امیدوار حصہ نہیں لے رہا تھامگر اب کی بار الیکشن میں علی گوہر بلوچ کوسعداللہ کے ساتھ ساتھ ہمایوں اخترخان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار محمد خان ندیم بھی انہیں ٹف ٹائم دیں گے سعداللہ بلوچ اور محمد خان ندیم بلوچ کے الیکشن لڑنے کی وجہ سے بلوچ برادری کا ووٹ تقسیم ہو جائے گا جس کا نقصان سابق ممبر قومی اسمبلی علی گوہر بلوچ کواٹھانا پڑ سکتا ہے اگر چچا بھتیجا ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار اورلاہور سے آ کر این اے97 میںقومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے والے بزنس ٹائیکون ہمایوں اختر خاں کا مقابلہ کرتے تو ان کی پوزیشن یک طرفہ دکھائی دینی تھی الیکشن کی گہما گہمی کے دوران حلقہ کے سیاسی دھڑے علی گوہر بلوچ کی حمایت میں شمولیت کا اعلان کررہے ہیں اور اسی طرح علی گوہر سے ناراض سیاسی دھڑے ہمایوں اختر کی حمائیت کا اعلان کرتے دکھائی دیتے ہیں علی گوہر بلوچ کے سابقہ ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے حلقہ کے عوام ان سے خوش دکھائی دیتے ہیں کیونکہ علی گوہر بلوچ نے کسی وقت کسی کا بھلا نہیں کیا تو کسی بھی مخالف کو نقصان پہنچانے کی کبھی کوشش نہیں کی حلقہ کے عوام اس بات کو جانتے ہیں کہ ہمہ وقت سارے کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتے کچھ کام ہو بھی جاتے ہیں اور کچھ رہ بھی جاتے ہیں باقی گزشتہ دور حکومت میں تقریبا چار سال علی گوہر بلوچ اپوزیشن بینچوںپر تھے جس کی وجہ سے علاقہ میں کسی بھی قسم کا ترقیاتی کام نہیں ہو سکا مگر پاکستان مسلم لیگ کی حکومت بنتے ہی گزشتہ کئی سال سے کھنڈرات کا منظر پیش کرتی سڑکوں کی تعمیر شروع ہونے کے ساتھ دیگر عوامی مسائل حل ہونا شروع ہو گئے جس پر حلقہ کے عوام کی اولین ترجیح علی گوہر خان بلوچ ہی ہیں مگر انہیں اپنی سیاسی برتری قائم رکھنے کے لئے انتھک محنت کرنا پڑے گی کیونکہ اس بار مقابلہ ایک منجھے ہوئے سیاست دان اور بزنس ٹائیکون ہمایوں اخترخان سے پڑا ہے جو الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کی خاطر ہر حربہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کریں گے ہمایوں اختر خاں گزشتہ کئی ادوار سے لاہور سے الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے حکومت کا حصہ بنتے رہے ہیں مگر اس بار انہوں نے این اے97کا چنائو کیا جو ان کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس حلقہ میں ان سے وابستہ شوگر ملز کے بزنس نے حلقہ کے کسانوں اور ملز میں ملازمت کرنیوالوں کو سہولیات کی عدم فراہمی پر ناراض کیا ہے ان کی شوگر ملز نے کئی سال تک حکومت کی طرف سے مزدور کی مقرر کردہ تنخواہ ادا نہ کرنے کے ساتھ کسانوں سے خریدے گئے گنے کی رقم بھی ادا کرنے میں لیت ولعل سے کام لیا شوگر ملز کے کرتا دھرا افسران نے گنے کے بڑے زمینداروں کو رقم کی ادائیگی کی بجائے چینی کے ڈیو بھی بنا کر دئیے مگر چینی کا ریٹ بڑھنے پر ڈیو حاصل کرنے والے زمیندار بھی خجل خوار ہوتے نظر آئے چھ سات ماہ تک ڈیو دینے کی ادائیگی نہ کرنے کے باوجود زمینداروں سے کہا گیا کہ آپ گنے کی رقم لے لیں وہ بھی قسطوں میں حالانکہ ملز کے کرتا دھرتا افسران ڈیو بناتے وقت بھی کسان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہوئے مارکیٹ ریٹ سے زیادہ قیمت میں ڈیو بنا کر دیتے ہیں زمیندار کا کچھ خون تو گنا خریدتے وقت کٹوتی اور ناپ تول میں کمی کے ذریعے چوس لیا جاتا ہے جبکہ باقی کا رہا سہا خون چینی کا ڈیو بناتے وقت نکال لیا جاتا ہے اس کے باوجود زمیندار خالی ہاتھ رہ جاتا ہے اسی وجہ سے کسان طبقہ اور ملز ملازمین اندر سے ناخوش دکھائی دیتے ہیںاین اے97کا فاتح کون ہو گا یہ8فروری کے دن واضح ہو جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں