تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
صبح کے وقت چند ملاقاتی مجھ سے ملنے کے لیے آئے ہو ئے تھے میں ایک ملاقاتی کی باتیں سن رہا تھا جب مجھے ملاقاتی کا مسئلہ سمجھ آگیا تو اب میں نے اس کو بولنے کا موقع دیا تاکہ وہ خوب بول کر اپنا دل ہلکا کر لے کیونکہ اگر میں اسے ٹوک دیتا تو اس نے ہر ملا قاتی کی طرح پر زور احتجاج کر نا تھا کہ میں نے اس کی بات نہیں سنی اب وہ بول رہا تھا میں ہوں ہاں کر رہا تھا کیونکہ اس کا مسئلہ مجھے پتہ چل گیا تھا اب میں اسے مو قع دے رہا تھا میری تو جہ اب اس کی گفتگو سے ہٹ چکی تھی میں اب اِدھر ادھر دیکھ رہا تھا وہ بو لے جا رہا تھا اِسی دوران پندرہ بیس میٹر دور ایک دیہاتی شخص نو عمر بچے کے ساتھ مجھے نظر آیا جو بغور میری طرف دیکھ رہا تھا دھوتی اور پگڑی کے ساتھ وہ بیٹھا آرام سے میری طرف دیکھ رہا تھا کیونکہ میری زندگی کا زیا دہ حصہ بھی گائو ں میں ہی گزرا ہے میں دیہی کلچر کے لوگوں میں پلا بڑھا ہوں اِس لیے اس کلچر سے میری انسیت بھی فطری ہے بوڑھا دیہاتی جس کی عمر ستر سال سے زیادہ تھی مجھ سے ملنے کے انتظار میں بیٹھا تھا چاچا جی آپ کہاں سے آئے ہیں اور میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں تو وہ ممنون لہجے میں بو لا یہ میرا پو تا ہے پڑھائی نہیں کر تا آوارہ لڑکوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے میں اس کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں کہ یہ سیدھے راستے پر آجائے ہم تو اِس کو سمجھا کر مار کر ڈرا کر سب کچھ کر چکے ہیں لیکن اِس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی’ اِس کا باپ اِ س کو نہیں سمجھا تا وہ کدھر ہے تو بزرگ بو لا وہ جیل میں ہے وہ جیل نہ ہو تا تو خود اِس کو سنبھالتا اب اس کے نہ ہو نے سے اِس کو سنبھالنا پرورش کر نا بھی اب میری ذمہ داری ہے اِس کا باپ جیل کیوں گیا اس نے کیا جرم کیا تو بزرگ بو لا اس نے چار بندوں کو قتل کر دیا تھا اس جرم میں جیل گیا ہے چار بندے قتل کر دئیے بزرگ نے یہ بات کتنے آرام سے بتا رہا تھا بندے نا ہوئے چار درخت کاٹ دئیے ہوں کیوں قتل کیے تو بوڑھا دیہاتی بولا میرے کہنے پر میں نے اپنے بیٹے سے کہا تھا جا سارے خاندان کو قتل کرکے میرے پاس آنا وہ گیااور چاربندے قتل کر دئیے میں نے خود تھانے میں پیش کیا اب وہ جیل میں ہے دیہاتی بزرگ کتنے پر سکون لہجے میں چار بندوں کے قتل کی بات کر رہا تھا میں نے بزرگ کو سر سے پاں تک بغور دیکھاہو شرافت اور سادگی کا پیکر لگ رہا تھا بزرگ دیہاتی میری حیرانی پریشانی کو بھانپ گیا بولا جناب آپ ٹھیک سوچ رہے ہو کہ کس طرح میں نے چار بندے مروادئیے اِن چار بندوں کے علاوہ ساری زندگی میں نے تو کبھی کسی سانپ بچھو کو نہیں مارا میں تو مرغی ہلال نہیں کر سکتا میں تو کسی کو گالی تک نہیں دے سکتا ۔ لیکن میرے جیسا سیدھا سادھا دیہاتی شریف انسان کیوں اِس موڑ پر آگیا کہ اسے چار بندوں کے قتل کا حکم دینا پڑا کیونکہ ان چار بندوں کے ساتھ میرا اکلوتا بیٹا بھی تو مارا ہی گیا اب یا تو وہ پھانسی پائے گا یا عمر قید نقصان تو میرا بھی ہو الیکن میں نے اِس بے درد بے رحم ظالم معاشرے پر احسان کیا۔ میرا تعلق فیصل آباد کے قریبی گائوں سے ہے میں چھوٹا سا زمیندار ہوں میری ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا یہی میری کل کائنات تھی بیٹا جوان ہوا تو اس کی شادی کر دی بیٹی جوان ہوئی تو اکیڈمی میں اپنے ٹیچر سے محبت کر بیٹھی پہلے تو میں نے ذات برادری کا رونا رویا لیکن جب بیٹی نے بہت ضد کی کہ میں نے اپنے ٹیچر سے ہی شادی کر نی ہے تو پڑھا لکھا انسان سمجھ کر میں بھی مان گیا اور بیٹی کی پسند کی شادی اس کے ٹیچر سے کر دی شادی سے پہلے میں نے اس کے خاندان کا پتہ کرنے کی کو شش کی لیکن داماد نے یہی بتایا کہ اس کا تعلق کراچی ہے ماں باپ مر گئے تو یتیم خانے میں جوان ہوا وہیں پر پڑھا ئی پھر مختلف نو کریا ں کر تا کر تا فیصل آباد آگیایہاں پر نوکری کے ساتھ ساتھ شام کو اکیڈمی میں پڑھاتا یہاں بیٹی کی محبت میں ہم مان گئے شادی کے بعد تین ماہ بعد تک تو داماد فیصل آباد میں رہا تین ماہ بعد کہا کہ اسے کراچی میں نوکری مل گئی ہے اِس لیے ا ب وہ میری بیٹی کو لے کر کراچی چلا گیا چند دن تو فون آتے رہے پھر فون آنے بند ہو گئے ہمار ا بیٹی اور داماد سے ہر قسم کا رابطہ ٹوٹ گیا ہم نے بہت کو شش کی لیکن ہمارا رابطہ نہیں ہوا اِس طرح ایک سال کا وقت گزر گیا ہم بیٹی کی جدائی میں نیم پاگل ہو گئے پھر ایک دن ایک لڑکی کا فون آیا کہ آپ کی بیٹی کو قتل کر دیا گیا ہے اب وہ اِس دنیا میں نہیں رہی آپ نے راز داری سے آکر مجھ سے ملنا ہے میرا بیٹا حیدر آباد اس لڑکی کے پتے پر گیا تو اس لڑکی نے بتا یاوہ سید زادی ہے آپ کا داماد ایک عادی مجرم ہے مختلف شہروں میں جا کر نوجوان خوبصورت لڑکیوں کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر شادی کر کے لاتا ہے پھر سندھ کے وڈیروں کو بیچ دیتا ہے یا پھر گھر میں جسم فروشی کا دھندہ کر تا ہے وہاں پر اپنی بیویوں سے جسم فروشی کر اتا ہے اسی طرح ملتان میں مجھے بھی اپنی محبت میں پھنسا کر لایا تو آپ کی بیٹی نے مجھے ساری حقیقت سنا دی آپ کی بیٹی مجھے اس اڈے سے لے کر بھاگی تو ہم دونوں کو پکڑ لیا گیا آپ کی بیٹی کو مار مار کر اتنا زخمی کیا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہو ئے مر گئی لیکن اِس دوران میرے گھر والے میری مدد کو آگئے وڈیرے اِن کے ساتھ تھے چند دنوں میں خود کشی کا کیس سنا دیا گیا اب وہ خاندان پھر اسی طرح معصوم لڑکیوں سے جسم فروشی کا دھندہ کر ا رہا ہے ۔ اس کیس کے بعد دوسال تک میں عدالتوں پو لیس تھانوں وڈیروں کے اڈوں پر انصاف مانگتا رہا لیکن مذاق اڑایا گیا تو آخر کار تنگ آکر میں نے بیٹے سے کہا جا اس درندے کو اس کی ماں باپ اور بہن کو قتل کر دو جو یہ دھندہ سر عام وڈیروں کی مدد سے کر رہے ہیں پھر میرے بیٹے نے ان خون خوار درندوں کو موت کے گھاٹ اتا ر دیا ۔ بوڑھا دیہاتی چٹانی لہجے میں بول رہا تھا کہ میں نے جو بھی کیا ٹھیک کیا اور میں اپنے فیصلے پر آج بھی خوش ہوں وہ چلا گیا لیکن میں سلگ رہا کہ ریاست مدینہ کے دعوے داروں کو نہیں پتہ کہ ہر شہر میں کہاں کہاں جسم فروشی کے اڈے ہیں تھانے داروں کو سب کا پتہ ہے اگر اب بھی یہ ایسے اڈوں کو بند نہیں کر تے تو پھرہر باپ خود اپنے بیٹے کو پستول دے کر کہے گا جا انصاف کر کے آ ۔
44