تحریر…ایم سرورصدیقی
وہ خاصامضطرب تھا بے چین سا ہوکر اٹھ بیٹھا ٹہلنے لگااسے ایک خاص مہمان کا انتظار تھا۔۔اس کا شمار شہرکے گنے چنے امیر کبیر لوگوںمیں کیا جاتا تھاانسان دوست،علم پرور اوردین کی خدمت کرنے والا حاشر ۔۔ کئی ادارے اس کی سرپرستی میں کام کررہے تھے ذرا سی بھی آہٹ ہوتی وہ چونک چونک جاتا اور بے اختیار نگاہیں دروازے کا طواف کرنے لگتیں۔اصرارکے باوجود معزز مہمان نے خاص طورپر تاکیدکی تھی کہ میں خود آپ کے پاس آئوں گا میرے استقبال کیلئے کسی کو نہ بھیجا جائے ۔ وہ مہمان کے مزاج سے واقف تھابس میں ہوتا تو حاشر خود سر کے بل ان کے استقبال کیلئے جانا اپنے لئے فخر سمجھتا۔۔اتنے میں ایک ملازم دوڑتا ہوا آیااور معزز مہمان کے آنے کی اطلاع کی حاشر بے تاب ہوکر ننگے پائوں استقبال کیلئے باہر لپکا وہ بزرگ دروازے تک آن پہنچے تھے ان کی صورت ایسی کہ دیکھ کر ایمان تازہ ہو جائے حاشربغلگیرہوا احترام سے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور مہمان خانہ میں لے گیا مشروب سے تواضح کی پھر کہاآپ نہا دھو کر تازہ دم ہو جائیں نماز کے بعد تناول کریں گیرات کو حاشرنے معزز مہمان کے اعزاز میں عشائیہ دیا جس میں کئی صحابہ ،تابعین، شہرکے چیدہ چیدہ لوگ ،علماء کرام ، شعرائ، ادب کے شائق اور تاجروںکو بھی مدعوکیا عشائیہ علم ،ادب اور مذہب کا حسین امتزاج تھا ۔ حاشر نے سب سے اپنے معزز مہمان کا تعارف کرواتے ہوئے کہا سید صاحب اتنا عظیم کام کررہے ہیں اس کا آج ہمیں شاید اندازہ ہی نہیں لیکن مجھے یقین ہے رہتی دنیا تک دنیا بھر کے لوگ آپ کو ہمیشہ عقیدت سے سلام کرتے رہیں گے ۔کھانا کھانے کے بعد بھی بیشترلوگ معزز مہمان سے سوال جواب کرکے علمی پیاس بجھاتے رہے۔۔اگلے روز اصرار کے باوجود مہمان نے جانے کا قصد کیا حاشر نے ظہرکی نمازان کی اقتداء میں پڑھنے کی خواہش کااظہار کیااسی اثنا ء میں کچھ لوگ ملاقات کے آواردہوئے ان کے ساتھ تاجروںکے روپ میں 2 افراد ایسے بھی تھے چوری،فراڈ اورڈکیتی جن کا چلن تھا۔معززمہمان رخصت ہونے لگا تو حاشر نے زاد ِ راہ کیلئے100اشرفیوںکی تھیلی پیش کی جو انہوں نے قبول کرلی۔ اتنی رقم دیکھ کر ٹھگوں کی حیرت سے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ان کے منہ میں پانی بھر آیا آنکھوںہی آنکھوںمیں انہوںنے مال ہتھیانے کا فیصلہ کرلیاجب بزرگ مہمان رخصت ہوا تو وہ بھی چپکے سے اس کے پیچھے ہولئے ٹھگوں کا ارادہ تھا شہر سے کچھ دور جب بھی موقعہ ملا وہ اشرفیاں چھین کر رفو چکر ہوجائیں گے لیکن بات نہ بنی بزرگ چلتے چلتے دریا کے کنارے پہنچے کسی سے اگلی منزل جانے والی کشتی بارے دریافت کرکے سوارہوگئے ۔تھوڑی دیر بعد ٹھگ بھی کشتی میں بیٹھ گئے سفرکاآغاز ہوا کشتی دریا کے عین وسط پہنچی دونوںنے شور مچانا، واویلاکرنا شروع کردیاہماری 100اشرفیوںکی تھیلی چوری ہوگئی ہے ملاح نے دو افراد تلاشی پرمامور کردئیے باری باری سب کی تلاشی۔ ایک بار، دوسری مرتبہ۔لیکن اشرفیوںبھری تھیلی کسی سے برآمد نہ ہوئی۔۔ٹھگوںنے براہ ِ راست بزرگ مہمان پر الزام لگاڈالا ہمیں اس پر شک ہے لوگ حیران پریشان ۔۔جس کے چہرے پر نور برس رہاہے چور کیسے ہو سکتاہے؟ مسافروںنے سمجھایا لیکن اصرار تھا ہمارا چور یہی ہے بار بار تلاشی لینے پر بھی کچھ نہ نکلا تو لوگوںنے دونوںکو لعن طعن شروع کردی کہ اتنی محترم شخصیت پر ایسا گھٹیا الزام ۔۔اور سچ مچ ٹھگوںکی حیرت گم ہوگئی۔۔وہ سوچنے لگے الہی یہ ماجرہ کیاہے؟ اشرفیاں گئی کہاں؟یہ شحص ہم سے بڑا فنکارہے کیا؟۔۔سفر اختتام پذیرہوا دونوں پھر بزرگ کا تعاقب کرنے لگے وہ ایک سنسان جگہ راستہ روک کر کھڑے ہوگئے ایک بولا ہماری نظروںکے سامنے آپ کو100اشرفیوںکی تھیلی دی گئی لیکن کشتی میں تلاشی کے دوران بھی نہیں ملی ہم نے اس کی خاطر اتنا لمبا سفرکیاہے لائو وہ تھیلی ہمیں دیدو۔۔بزرگ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اشرفیاں تو میرے پاس نہیں ہیں؟۔۔ انہوںنے متانت سے جواب دیا۔ پھر اشرفیاںکہاں گئیں؟ دوسرے نے بے صبری سے پو چھا۔بزرگ نے مسکراتے ہوئے کہا جب تم نے شور مچایا کہ ہماری 100اشرفیوںکی تھیلی چوری ہوگئی ہے ۔میں نے چپکے سے وہ تھیلی دریا میں پھینک دی تھی ۔دونوں حیرت سے اپنے مخاطب کوتکنے لگے۔۔اتنی بڑی رقم دونوں بیک وقت بولے۔آپ نے دریا برد کردی
”بڑی سے بڑی دولت ۔ بزرگ نے فصیحت کے انداز میں کہا انسان کے کردارسے زیادہ قیمتی نہیں ہوتی تم لوگ مجھے نہیں جانتے پیرانہ سالی کے باوجود نامساعد حالات، سفر کی صعوبتیں موسموںکی سختی کی پرواہ کئے بغیرمیں اتنا بڑا کام کررہاہوں جس کا تم اندازہ نہیں لگا سکتے میں نبی ٔ آخرالزماں ۖ کی احادیث ِ مبارکہ مرتب کررہاہوں تم جاننا چاہتے ہو تو سنو کشتی کے مسافروں میں صرف تم دونوں اس حقیقت سے واقف تھے کہ اشرفیاں میری ملکیت ہیں تلاشی کے نتیجہ میں مجھ سے برآمدہو جاتیں تو میرا کردار میری شخصیت قیامت تک متنازعہ ہو جاتی لوگ یہ تو کہہ سکتے تھے اسمعیل بخاری پر چوری کا الزام لگاتھا بعد میں حاشرمیری بے گناہی کی شہادت بھی دے دیتا تمہارا ضمیر ملامت کرتا تم سچی بات بھی بتا دیتے لیکن اس وقت کشتی کے مسافروںکو میں اپنی بے گناہی ثابت نہیں کر سکتا تھا اس لئے میرے پاس یہی ایک راستہ تھا کہ میں 100اشرفیوںکی تھیلی دریا برد کردوں مجھے اپنی ذات پر الزام بھی گوارا نہ تھا۔۔ دونوں ندامت میں پانی پانی ہوگئے اور برے کاموں سے تائب بھی۔۔یہ واقعہ حضرت سید اسماعیل بخاری کا ہے جن کی مرتب کردہ احادیث ِ مبارکہ کی مستند کتاب ”صحیح بخاری” ہے جوقرآن مجید کے بعد سب سے معتبرکتاب سمجھی جاتی ہے۔ایک طرف کردار کی یہ عظمت ۔تو دوسری طرف ہمارے حکمران، بیورو کریٹ، تاجر،حکمران،سرمایہ دار، سیاستدان۔سرکاری افسران جو لکڑ ہضم ،پتھر ہضم کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے،رشوت ،کرپشن،منتھلیاں جن کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہیں اور تو او ر میاں نوازشریف،میاں شہبازشریف کاپورا کے پورا خاندان، آصف زرداری ان کے ہونہارسپوت اور انکی ہمشیرہ یوسف رضا گیلانی ،پرویز اشرف ، عمران خان ،اسحق ڈار ،پرویزخٹک اور نہ جانے کیسے کیسے نیک نام، بے ضرر اور ”معصوم ”رہنما جب کرپشن کے الزامات میں پبشیاں بھگتے پھرتے ہیں تو اپنے اسلاف کا کردار یاد آجاتاہے وہ بھی کیا لوگ تھے جنہیں اپنی شخصیت پر ایک جھوٹا بھی الزام گوارا نہیں تھا لیکن ہمارے اردگرد بیشتر مال بنانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے بے شک پورا دامن داغدار ہی کیوں نہ ہو جائے اب تویہ حال ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں بیشترکیلئے حتیٰ کہ حلال ،حرام کی تمیز ختم ہوگئی ہے۔ان لوگوںکی تو خبر نہیں لیکن ہم جیسے شرم سے پانی پانی ہو جاتے ہیں سچی بات تو یہ ہے کہ جب تلک کردارسازی کی طرف توجہ نہیں دی جاتی بہتری کی جانب پیشرفت کیسے ہوگی؟ انسان کا کردار سورج کی مانندہوتاہے جس کی روشنی دور سے بھی نظر آتی ہے ۔۔ایک ایسی سچائی جو دلوںکو حرارت بخشتی ہے ضمیرکوطاقت عطا کرتی ہے ۔لیکن دولت کے پجاری معاشرہ میں یہ سب باتیں بے معنی سی ہیں۔ دور کہیں دور جیسے حبیب جالب کی آواز سرگوشیاں کرتی ہو
اے چاند یہاں نکلا نہ کر
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
میرے اندرکا انسان دھاڑیں مار مار کر روتا ہے تو اسے چپ کرانے یا دلاسہ دینے والا بھی کوئی نہیں آتا۔
38