جولائی کے مہینے کی ایک قدر مشترک ہے کہ اس میں مجھے گرمی اور باپ سے جدائی کی شدت تڑپا کر رکھ کر دیتی ہے۔ آج سے 18سال قبل میرے سر پر باپ جیسی عظیم ہستی کا سایہ موجود تھا، مگر 11جولائی 2006ء کی صبح جیسے ہی نماز فجر سے فارغ ہوا تو میرے سر سے یہ سایہ اُٹھ چکا تھا اور میں یتیم ہو گیا تھا، میرا اپنے والد محترم ملک محمد شریف کیساتھ باپ بیٹے کیساتھ دوستی کا رشتہ بھی مثالی تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میری عمر بمشکل 4/5برس ہو گی، جب سے میں اپنے والد کے پاس حویلی چلا گیا تھا، جہاں پر زندگی کے 22برس گزارے، مویشیوں کی دیکھ بھال کیساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی اور یہ وہ حسین یادیں ہیں جو ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گی، بے شک! باپ ایک سائبان شفقت ہے جس کے سائے میں اولاد پروان چڑھتی ہے، باپ کے ہوتے ہوئے اولاد خود کو محفوظ سمجھتی ہے، باپ کے ہوتے بیٹے بے فکری کی زندگی بسر کرتے ہیں، جیسے ہی باپ کا سایہ سر سے اُٹھتا ہے تو اولاد کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ ان کے سر پر کتنا بوجھ آ گرا ہے، باپ اﷲ رب العزت کی عظیم نعمت ہے اور انسان جو کچھ بھی ہے اپنے والدین کی وجہ سے ہے، میرے والد محترم ملک محمد شریف نے نہایت احسن طریقہ سے میری تعلیم وتربیت کر کے میرے لیے کامیابیوں وکامرانیوں کے راستے ہموار کئے، محبوب خدا حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، تین دعائیں ایسی ہیں جن کی قبولیت میں کوئی شک نہیں، والد کی دعا، مسافر کی دعا اور مظلوم کی دعا۔ باپ کا اپنے بچوں کو چھونا’ پیار کرنا’ دل سے لگانا، یہ تو بچپن کی باتیں ہیں اور ہر بچہ جوان ہوتا ہے پھر بوڑھا بھی بن جائے تو بچپن کی اس حسین یادوں کو نہیں بھولتا، باپ بن کر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں، پتہ نہیں ہمارے باپ نے کتنی دفعہ ہمیں اپنے سینے سے لگانے کو بازو کھولے ہونگے’ اگر باپ کی عظمت کا پاس کرتے ہوئے اس کی اطاعت’ فرمانبرداری’ خدمت اور تعظیم کر کے اس کی رضا حاصل کی جائے تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں دین ودنیا کی کامیابیاں’ سعادتیں اور جنت جیسی نعمتیں مل سکتی ہیں، ماں باپ جیسی دنیا میں کوئی نعمت نہیں ہے، اگر کسی کو یہ نعمت حاصل ہے اور وہ والدین کی خدمت واطاعت کر رہا ہے تو وہ بڑا سعادت مند اور اﷲ تعالیٰ کا محبوب بندہ ہے، یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ قرآن وسنت کی تعلیمات میں والدین کی خدمت واطاعت کا حکم دیا گیا ہے، گلشن حیات کی ابتداء باپ (حضرت آدم علیہ السلام) سے ہوئی، اولاد کی تعلیم وتربیت میں والد کا کردار ضروری ہوتا ہے،اسلام میں والدین کابہت بڑا مقام اور مرتبہ ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے، اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔ رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور لوگوں سے اچھی بات کہو۔ اسی طرح سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ اور آپ کے پروردگار کا فرمان ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کیا کرو، اگر تمہارے سامنے اِن میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو بلکہ ان سے نرمی کے ساتھ بات کرو اور اپنے بازو نہایت عاجزی اورنیازمندی سے ان کے سامنے جھکادو اور (ان کے لئے یوں دعائے رحمت کرو) اے میرے پروردگار! تو اِن پر (اس طرح) رحم فرما، جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میںرحمت وشفقت سے پالا تھا۔ والد اپنی اولاد کی پرورش کیلئے اپنی جان تک لڑا دیتا ہے’ وہ اپنی ساری زندگی اولاد کیلئے راحتیں پیدا کرنے میں بسر کرتا ہے، دنیا کی تمام نعمتیں اولاد کو لا کر دینے کیلئے کوشاں رہتا ہے اور اس مقصد کیلئے سخت محنت کرتے ہوئے اپنی خواہشات کو بھی دبا دیتا ہے، دنیا میں کوئی شخص کسی دوسرے کو خود سے آگے جاتا ہو انہیں دیکھ سکتا، کسی دوسرے کو خود سے زیادہ ترقی کرتا دیکھ کر شاید ہی کوئی خوش ہو لیکن باپ کی شخصیت ایسی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ اس کی اولاد اس سے آگے بڑھے، وہ اپنے بچوں کو ترقی کرتا دیکھ کر خوشی سے سرشار ہو جاتا ہے، باپ ایک ایسا محافظ ہے جو ساری زندگی اولاد کی نگہبانی کرتا ہے’ میرے باپ کو میری تعلیم وتربیت کی بڑی فکر رہتی تھی اور وہ میرے لئے دعائیں بھی کرتے رہتے، اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے میرے والد محترم کی دعائیں قبول فرمائیں میری بہترین تعلیم وتربیت سے میری شخصیت مکمل اور مجھے رشد وہدایت نصیب ہوئی، آج والد محترم ملک محمد شریف کے بغیر زندگی کے 18برس بیت گئے، ان کی جدائی کا صدمہ ہم آج تک نہیں بھولے اور نہ کبھی بھول سکیں گے اور اب بھی ان کی جدائی کا صدمہ میری آنکھیں اشکبار کر جاتا ہے، اﷲ تعالیٰ نے میرے والد محترم کو بڑی خوبیوں سے نوازا، وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے اپنی اولاد سے یکساں محبت ہے مگر ہم بہن بھائیوں میں سے ہر کسی کو یہ گمان رہا کہ وہ مجھ سے زیادہ محبت کرتے ہیں، وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ باپ کو چاہیے کہ اپنی اولاد کا خیال رکھے اور اپنے ملنے والوں کو بھی یہ کہتے تھے کہ بچے جب سوچنے سمجھنے کی صلاحیت حاصل کر لیں تو انہیں کردار سازی میں اتنا پختہ کر دینا چاہیے کہ وہ زمانے کے نشیب وفراز کا مقابلہ کر سکیں۔ بے شک! والد محترم ملک محمد شریف کی باتیں اور یادیں ہمارا سرمایہ حیات ہیں، دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل میرے والدین مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
46