21

تاکہ سند رہے …

پوری کائنات انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فطرت مبنی بر انصاف کے فلسفے پر قائم ودائم ہے۔ سورج سب کے لئے طلوع ہوتا ہے۔ چاند تاروں کی خوبصورتی کا نظارہ جمادات و نباتات و حیوانات برابر کرتے ہیں۔ بارش کا برسنا کسی ایک خطے کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ سبزہ اور ہریالی ہر ذی روح کی آنکھوں کو تراوت بخشتے ہیں۔ پھول اور کانٹے اکٹھے ہوتے ہیں اور کسی ایک کو دوسرے سے تکلیف نہیں ہوتی ہے۔ سب چیزوں کے جوڑے بنا دیئے گئے ہیں یہاں تک کہ دنیا کا بھی جوڑا بنا دیا گیا ہے۔ ایک زمین پر بسائی گئی دنیا ہے اور دوسری اگلے جہان کی دنیا ہے۔ گوشت پوست کے بنے ہوئے انسانوں کا دنیا میں آنے کا عمل اور جانے کے طریقے میں کہیں بھی تفاوت نہیں ہے۔ لیس للانسان الا ماسعی محنت اور محنت کے پھل کا بنیادی فلسفہ ہے۔ کائنات کی ترتیب وتدوین بھی کچھ اسی طرح کا پیغام دیتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔مزید انسان کو جملہ ادیان ومذاہب اور دیگر اکابرین فکروفلسفہ نے بھی ببانگ دہل یہ پیغام دیا ہے کہ کائنات میں غورو فکر کریں اور جس جس نے آنکھیں کھول کے رکھیں اور کائنات کو غور سے دیکھا اس پر یہ منکشف ہوا ہے کہ فطرت سے سبق سیکھنا ہو گا اور پھر اپنے ہم جنسوں تک کو ایک پیغام پہنچانا ہوگا تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں۔ جملہ تخلیقات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سوائے انسان کے باقی سب آج کی دنیا بسا کر بیٹھے ہیں اور مطمئن ہیں جبکہ انسان کے پیش نظر کل ہے اور اس نے اپنے کل کو بہتر بنانے کی فکر کرنی ہے اور فکر انگیزی میں وہ افراط و تفریط کا شکار ہو جاتاہے۔ کبھی وہ اپنے ہم جولیوں کو دھوکے دیتا ہے۔ کبھی وہ اپنے بھائی کو کنویں میں دھکا دے دیتا ہے۔ کبھی اپنی ہی بہن کو حق وراثت سے محروم کردیتا ہے۔ کبھی اپنے والدین کے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیتا ہے۔ کبھی بیوی کو عملی طور پر پائوں کی جوتی بنا لیتا ہے۔ لوگوں کی جائیدادیں ہڑپ کرکے بھی وہ اپنے لالچ اور حرص کی آگ کو بجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ دنیاوی اقتدار اور جاہ وجلال کے لئے کسی حد تک جا سکتا ہے یوں اخلاقیات کی ساری حدیں پھلانگ جاتا ہے بلکہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے اور اس کا اپنا خون سفید ہوجاتا ہے۔ اپنی کل کو اچھا کرنے کے لئے اندھا ہو جاتا ہے۔ پھر تو وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ دنگا فساد ۔ کون اس کو بتائے اور اس کے دماغ کی کھڑکیاں کھولے کہ میاں یہی بات تو فرشتوں نے تیری تخلیق کے وقت رب ذوالجلال سے کی تھی اور تو وہ بات سچ کرنے جارہا ہے۔ انبیا والا کام علما نے کرنا تھا اور علما کے ہاتھ میں مائیک آگیا ہے اور وہ ابھی ایک دوسرے کی کلاس لے رہے ہیں اور اس کلاس کا دورانیہ بھی بڑھتا جارہا ہے۔ پڑھے لکھے بھی اپنے کل کو خوبصورت بنانے کے چکر میں پڑ گئے ہیں اور وہ بھی ان پڑھوں کو خوب چکر دینے میں برسر پیکار ہیں۔جمہوریت کے ہاں بھی انصاف کے تقاضے نبھائے جانے کا ایک جامع پروگرام ہے اور یہ پروگرام ووٹ کو عزت دینے کی مکمل طور پر نذر ہو گیا ہے۔ آجا کے عدالت کے تقدس پر آکر نظر رکتی ہے اور عدالت میں بینچ اور بار کا اپنا ایک ورکنگ ریلیشن شپ ہے اور پھر جج بھی تو ہم میں سے ہی ہیں۔ خود مختاری اختیارات کے ارتکاز کا تقاضا کرتی ہے اور اختیارات نے ہی تو سب کی مت مار دی ہے بلکہ ہمارے ہاں تو ہر چیز کی روح مر گئی ہے اور روح کا مرنا بھی تو قیامت کی نشانی ہے۔ قیامت قریب ہے۔ یہ بیانیہ مایوسی کو تقویت دیتا ہے اور مایوسی گناہ ہے۔ اب ہمارے ہاں یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے کہ ہم آج تک گناہ کو بھی پوری طرح سمجھ نہیں پائے ہیں گناہ کے سلسلے میں بھی ہم من مرضی کرنے والے ہیں اور اس کی تشریح وتوضیح میں ڈنڈی مارنا کوئی ہم سے سیکھے۔ عدالتی نظائر ورائٹی میں ہمارے سامنے ہیں اور ان کی تشریح بھی تو ہم سب نے مل کر کرنی ہے۔ مل کر کام کرنے میں بڑی برکت ہے اور یہی شاید جمہوریت کا فلسفہ ہے۔ فلسفے کی بھی ایک اپنی اہمیت ہے ایسے تو نہ یونانی فلسفہ آج تک پڑھایا جا رہا ہے۔ مشرقی اور مغربی فلسفیوں کے خیالات میں انیس بیس کا فرق ہے بلکہ یہ سارا کچھ فلسفے کے ارتقا کا تسلسل ہے۔ سلسلے کو آگے بڑھاتے ہیں تاکہ ہمارا کل بہتر ہو جائے اب تو غیر جانبدار غیر مسلم محققین اور ناقدین نے بھی واضح طور پر کہنا شروع کردیا ہے کہ دنیائے ارض وسما میں انسانیت کے لئے سب سے بہترین ماڈل محمد عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات والاصفات ہے۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ انہوں نے اپنی ذاتی زندگی سے لے کر بحیثیت حکمران اور منصف انصاف کے ترازو کے دونوں پلڑوں کو برابر کرکے انصاف کے تقاضوں کے معیارات پوری دنیا کو بتا دیئے تھے۔ وہ جس بیٹی کو اپنے جگر کا ٹکڑا کہتے تھے اس کو بھی اس کی استدعا کے باوجود مال غنیمت سے کنیز دینے کی بجائے وظیفہ پڑھنے کو دے دیتے تھے۔ انصاف کی حساسیت کے بارے میں کچھ یوں فرماتے تھے کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیئے جائیں گے۔ سلمان فارسی کو اپنے اہل بیت کا حصہ قرار دے کر انہوں نے عربی اور عجمی کے فرق کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیا تھا۔ یہودیوں اور مسلمانوں کے تنازعات کے فیصلوں میں کسی مصلحت کا کبھی شکار نہ ہوتے تھے۔ میاں بیوی کے حقوق کا واضح تعین کرکے خانگی نظام میں انصاف کو یقینی بنا دیا گیا تھا۔ جنگ کے اصول و ضوابط خالصتنا مبنی بر انصاف کے اصول پر قائم کئے گئے تھے۔ بیت المال کا سارا مال لوگوں میں تقسیم کرکے گھر جاتے تھے۔ اپنی ذات سے متعلقہ ہر سوال کا خندہ پیشانی سے جواب دیتے تھے۔ مشاورت میں ہر کس وناقص کو شریک کیا جاتا اور جمہوریت کی اصل فکر کے اصل تقاضے نبھائے جاتے۔ خاتم النبیین سیدنا محمد الرسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور انصاف کے تقاضوں کی ایک پوری تاریخ ہے اور پوری تاریخ کو ایک کالم میں سمو دینا ممکن نہیں ہے۔ خلاصہ پیش کرنا ہی مقصود ہے۔ کاش اس بات کی ہم سب کو سمجھ لگ جاتی تو عدل و انصاف کا سلسلہ گھر کی چاردیواری سے شروع ہو کر ایوان اقتدار کی راہداری تک اپنی معراج کو پہنچ جاتا۔ ہمارے سارے اعتراضات، خرافات، حوادثات، فسادات اور استثنیات ختم ہو جاتے۔ اپنے اپنے لیول پر احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جاتا۔ کسی کی تضحیک کرنے کا تصور ہی ختم ہو جاتا۔ کوئی ذمہ دار شہری کسی سازش کا حصہ نہ بنتا۔ دلوں کی کدورتیں اور ذہنی خلفشار ختم ہو جاتے اور ہر کوئی اپنے اپنے مدار میں رہتا۔ یوں اوکے کی رپورٹ آجاتی اور اس رپورٹ کی کاپی ہر شہری کے دل میں محفوظ کردی جاتی تاکہ سند رہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں