تحریر: رشید احمد نعیم
ماں نے پوچھا بیٹا وہ کیوں؟ کہا امی اس لیے کہ دنیا والوں کو پتہ چل جائے کہ جو اپنے رب کا نافرمان اور ماں باپ کا نافرمان ہوتا ہے اس کا انجام یہ ہوا کرتا ہے۔میری پیاری ماں مجھے قبرستان میں دفن نہ کرنا”۔ماں نے کہا وہ کیوں؟ ”کہا ماں مجھے اسی صحن میں دفن کردینا ایسا نہ ہو کہ میرے گناہوں کی وجہ سے قبرستان کے مردوں کو تکلیف پہنچے۔جس وقت نوجوان نے ٹوٹے دل سے عاجزی کی یہ بات کہی تو پروردگار کو اس کی یہ بات اچھی لگی’ روح قبض ہوگئی’ابھی روح نکلی ہی تھی ماں آنکھیں بند کررہی تھی تو دروازے پر دستک ہوئی پوچھا کون؟ جواب آیا حسن بصری ہوں۔ کہا حضرت آپ کیسے؟ فرمایا جب میں نے تمہیں جواب دے دیا اور سوگیا۔
خواب میں اللہ رب العزت کا کا حکم ہوا’ پروردگار نے فرمایا حسن بصری تو میرا کیسا ولی ہے؟ میرے ایک ولی کا جنازہ پڑھنے سے انکار کرتا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ اللہ نے تیرے بیٹے کی توبہ قبول کرلی ہے۔ تیرے بچے کی نماز جنازہ پڑھنے کیلئے حسن بصری کھڑا ہے۔اے اللہ! تو کتنا کریم ہے کہ مرنے سے چند لمحہ پہلے اگر کوئی بندہ شرمندہ ہوتا ہے تو اس کی زندگی کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے ّ (منقول بحوالہ کِِتابُ المُعجزات جِلد نمبر ٢)حضرت عمر رضی اللہ تعالہ عنہ کے دور خلافت میں مدینہ میں ایک گویا (singer) تھا جو گایا کرتا تھا طبلہ سارنگی کے بغیر۔اس زمانے میں یہ بھی بہت معیوب سمجھا جاتا تھاجب اس کی عمر 80 سال ہو گئی تو آواز نے ساتھ چھوڑ دیااب کوئی اس کا گانا نہیں سنتا تھاگھر میں فقر و فاقے نے ڈیرے ڈال لئے ایک ایک کر کے گھر کا سارا سامان بِک گیاآخر تنگ آ کر وہ شخص جنت البقیع میں گیا اور بے اختیار اللہ کو پکاراکہ یا اللہ! اب تو تجھے پکارنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔۔۔۔مجھے بھوک ہے۔میرے گھر
والے پریشان ہیں۔یا اللہ! اب مجھے کوئی نہیں سنتا۔تو تو سن۔تو تو سن۔میں تنگ دست ہوں تیرے سوا میرے حال سے کوئی واقف نہیں۔حضرت عمر مسجد میں سو رہے تھے کہ خواب میں آواز آئی عمر! اٹھو بھاگو دوڑو۔۔میرا ایک بندہ مجھے بقیع میں پکار رہا ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ ننگے سر ننگے پیر جنت البقیع کی طرف دوڑے۔کیا دیکھتے ہیں کہ جھاڑیوں کے پیچھے ایک شخص دھاڑیں مار مار کر رو رہا ہے۔اس نے جب عمر کو آتے دیکھا تو بھاگنے لگا سمجھا کہ مجھے ماریں گے۔حضرت عمر نے کہا” رکو کہاں جا رہے ہو؟ میرے پاس آؤ۔میں تمھاری مدد کے لیے آیا ہوں”۔وہ بولا آپ کو کس نے بھیجا ہے؟؟۔حضرت عمر نے کہا جس سے لو لگائے بیٹھے ہو مجھے اس نے تمھاری مدد کے لئے بھیجا ہے یہ سننا تھا وہ شخص گٹھنوں کے بل گِرا اور اللہ کو پکارا۔یا اللہ!ساری زندگی تیری نا فرمانی کی، تجھے بھلائے رکھا۔یاد بھی کیا تو روٹی کے لئے اور تو نے اس پر بھی ”لبیک” کہا اور میری مدد کے لیے اپنے اتنے عظیم بندے کو بھیجا۔ میں تیرا مجرم ہوں۔یا اللہ مجھے معاف کر دے۔ یا اللہ مجھے معاف کر دے۔ یہ کہتے ہوے وہ مر گیا۔ حضرت عمر نے اس کا نمازِ جنازہ پڑھایا۔اور اس کے گھر والوں کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر کر دیا(حیات الصحابہ) ایک نوجوان نہایت بدکار تھا لیکن جب وہ کسی گناہ کا ارتکاب کرتا اسکو کاپی میں نوٹ کر لیتا تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک نہایت غریب عورت اس کے بچے تین دن سے بھوکے تھے وہ اپنے بچوں کی پریشانی برداشت نہ کر سکی تو اس نے اپنی پڑوسن سے ایک عمدہ ریشم کا جوڑا ادھار لے لیا۔وہ اسے پہن کر نکلی تو اس نوجوان نے اسے دیکھ کر اپنے پاس بلایا۔ جب اسکے ساتھ بدکاری کا ارادہ کیا تو وہ عورت روتے ہوئے تڑپنے لگی اور کہا میں فاحشہ یا زانیہ نہیں ہوں۔میں بچوں کی پریشانی کی وجہ سے اس طرح نکلی ہوں۔ جب تم نے مجھے بلایا تو خیر کی امید ہوئی۔اس نوجوان نے اسے کافی درہم دئیے اور رونے لگا اور گھر آ کر اپنی والدہ کو پورا واقعہ سنایا۔ اسکی والدہ اسکو ہمیشہ معصیت”برائی”سے روکتی اور منع کرتی تھی آج یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور کہا بیٹا تو نے زندگی میں یہی ایک نیکی کی ہے۔ اسکو بھی اپنی کاپی میں نوٹ کر لے،بیٹے نے کہا کاپی میں اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے والدہ نے کہا کاپی کے حاشیہ پر نوٹ کر لے۔چناچہ حاشیہ پر نوٹ کر لیا اور نہایت غمگین ہو کر سو گیا۔جب بیدار ہوتا ہے تو دیکھا پوری کاپی سفید اور صاف کاغذوں کی ہے کوئی چیز لکھی ہوئی باقی نہیں رہی صرف حاشیہ پر جو آج کا واقعہ نوٹ کیا تھا وہی باقی تھااور کاپی کے اوپر کے حصہ میں ایک آیت لکھی ہوئی تھی ”بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں”۔اس کے بعد اس نے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لی اور اسی پر قائم رہا
47