حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایک مرتبہ پیٹ درد کی شکایت ہوئی تو انہوں نے کوہ طور کا قصد کیا اور اﷲ رب العزت سے فریاد کی تو اﷲ تعالیٰ نے کسی جڑی بوٹی کی طرف رہنمائی فرمائی، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے وہ جڑی بوٹی کھائی اور ٹھیک ہو گئے، پھر کچھ عرصہ بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دوبارہ پیٹ درد کی شکایت ہوئی تو وہ اس بار وہ اﷲ تعالیٰ سے پوچھے بنا وہی جڑی بوٹی لے آئے اور اسے استعمال کیا لیکن اب کی بار شفا حاصل نہ ہو سکی بلکہ پیٹ درد بڑھ گیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر پہنچے اور اﷲ رب العزت سے فریاد کی کہ یاالٰہی! پہلے میں نے بیماری میں یہ جڑی بوٹی کھائی تو تندرست ہو گیا تھا لیکن اب پیٹ درد میں مبتلا ہوا تو یہ پھر یہ جڑی بوٹی کھائی تو ٹھیک نہیں ہوا، اﷲ رب العزت نے فرمایا کہ اے موسیٰ علیہ السلام پہلے میرا امر تھا، اب میرا امر نہیں، مطلب یہ کہ شفا جڑی بوٹی سے نہیں ملی تھی، شفا میرے امر سے تھی! اس واقعہ سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ ہمیں رجوع الی اﷲ کرنا چاہیے، بے شک اﷲ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، ہم جو لقمہ کھاتے ہیں یا جو دوا استعمال کرتے ہیں، ہر دوا اور لقمہ حلق سے نیچے اترتے وقت اﷲ تعالیٰ سے اجازت طلب کرتا ہے، اے اﷲ میں اس بندے یا بندی کے لیے غذا بنوں’ شفا بنوں یا بیماری بنوں’ پھر جو میرے رب کا امر ہوتا ہے وہ لقمہ یا وہ دوا اس کے مطابق اثر کرتی ہے، ہم جو روزمرہ خوراک کھا رہے ہیں، اس خوراک سے کتنے مریض ایسے ہیں جو شفایاب ہو رہے ہیں اور کتنے ہی ایسے صحت مند انسان ہوتے ہیں جو وہ خوراک کھا کر بیمار پڑ جاتے ہیں، بے شک! اﷲ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کسی چیز میں کوئی خصوصیت یا اثر نہیں ہوتا، ہر چیز اس کے دست قدرت میں ہے اور ہمیں چاہیے کہ موجودہ صورتحال سے نجات کے لیے اﷲ تعالیٰ سے رجوع کریں، اس وقت ملک کے معاشی حالات تشویشناک ہیں، اشیائے خوردونوش کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں، کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر ہونے لگی ہیں اور لوگوں کا بیروزگار ہونا لمحہ فکریہ ہے، ایل سیز کے مسائل کی وجہ سے آئندہ ایک ماہ میں ایندھن کا بحران پیدا ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہو چکا ہے، معاشی عدم استحکام کو سیاسی بے یقینی کا نتیجہ قرار دیا جائے تو بیجا نہ ہو گا، ستم بالائے ستم یہ کہ ملک میں معاشی عدم استحکام کے باعث لوگوں کو جو شدید مشکلات درپیش ہیں ان کے حل کیلئے سیاسی جماعتوں کے قائدین مل جل کر کام نہیں کر رہے، حکومت اور اپوزیشن میں اختلافات کا فائدہ ذخیرہ اندوز اٹھا رہے ہیں اور اشیائے ضروریہ کی قلت اور قیمتوں میں اضافہ کر کے لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے، پاکستان کا ایک بڑا طبقہ شدید بے چینی کا شکار ہے اور وطن عزیز اس وقت جن گھمبیر مسائل کا شکار ہے ان میں سیاسی عدم استحکام’ معاشی ابتری’ بے روزگاری’ مہنگائی’ کاروباری بدحالی’ زرعی وصنعتی پیداوار میں تنزلی اور دیگر کئی وجوہات شامل ہیں، اس صورتحال میں ان سیاستدانوں جو قوم میں مقبولیت کے دعویدار ہیں، ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ قوم کو درپیش مسائل ومشکلات کا احساس کریں۔موجودہ حالات سے نجات کیلئے ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں کیونکہ تدبیر کیساتھ رجوع الی اللہ بھی ضروری ہے ‘اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے دو نظام کارفرما ہیں، ایک: نظامِ اسباب، دوسرے: نظامِ غیب، نظام اسباب یہ ہے کہ ظاہری اسباب کے واسطہ سے نتائج ظاہر ہوں، یہ ایک واضح حقیقت ہے، جس کو ہم روز وشب سر کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں،اگر کوئی شخص آگ کے شعلہ کو اپنے ہاتھ میں لے لے تو اسکا ہاتھ جلے گا، اور تیرنے سے واقف نہ ہو پھر بھی گہرے دریا میں کود جائے تو یقینا ڈوب جائیگا، یہ اسباب کا نظام ہے جو پوری کائنات میں کارفرما ہے، اور دنیا میں ہمارے سارے کام اسی ذریعہ سے انجام پاتے ہیں۔نظامِ غیب کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کے حاصل ہونیکا جو فطری ذریعہ ہوتا ہے، اس کے بغیر وہ چیز حاصل ہو جائے، یا جو چیز جس بات کا سبب بنتی ہو، اس کا وہ نتیجہ ظاہر نہ ہو پائے، جیسے: آگ میں انسان جل جاتا ہے؛ لیکن اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ نے نہیںجلایا ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کیساتھ بحر قلزم میں اتر گئے؛ لیکن سمندر انہیں ڈبو نہیں سکا، یہ اللہ تعالی کا غیبی نظام ہے، آخرت کا تو پورا نظم ونسق اسی نظام کے تحت رہے گا؛ لیکن اللہ تعالی کی طرف سے دنیا میں بھی وقتاً فوقتاً انسان کو اس نظام کی جھلک دکھائی جاتی ہے۔رجوع الی اللہ سے مراد اللہ رب العزت سے رجوع کرنا ہے رجوع الی اللہ کا لفظ ایک اورمعنی میں بھی استعمال ہوتا ہے’یعنی جب کائنات کی چیزوں کے متعلق رجوع الی اللہ کا لفظ بولا جائے تواس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اس دنیا میں اگرچہ ظاہری طور پر انسانوں کی حکومت اوردنیا کی چیزوں کا انسانوں کی ملکیت میں ہونا نظر آتا ہے لیکن انسانوں کے ظاہری اختیار بالآخر ختم ہو جاتے ہیں’اسی لئے بزرگوں نے کیا خوب کہا ہے کہ سدا بادشاہی رب کی ہے’بے شک اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے اورہمیں رجوع الی اللہ سے کام لینا چاہیے’اللہ تعالیٰ سے رجوع کرنیکی صورت دعا کرنا ہے’یہ مومن کا ہتھیار ہے اور اس سے مصیبتیں دورہوتی ہیں’دعا سے انسان کی مرادیں پوری ہوتی ہیں اوردعا بندے کو اللہ تعالیٰ سے ملا دیتی ہے اوربندے کو اللہ تعالیٰ کا ساتھ مل جائے اس سے اہم بات اورکیا ہوسکتی ہے۔ محبوب خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دعا ہی ایسی چیز ہے’جس سے تقدیر کا فیصلہ بدلتا ہے’بندہ جب بھی دعا کرتا ہے تو جومانگتا ہے اللہ تعالیٰ وہی عطا فرماتا ہے یا اس کے مثل کوئی اورچیز عنایت فرماتا ہے’بشرطیکہ بندہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے’ملک وقوم کواس وقت جن حالات کا سامنا ہے ہمیں اس سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ رجوع الی اللہ کرتے ہوئے خالق کائنات پربھروسہ رکھنا چاہیے’انشاء اللہ کامیابی ہمارا مقدر بنے گی۔
39