برداشت اور عدم برداشت کے فرق سے دنیا کو بخوبی واقف ہونا چاہیئے تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ شاید ہم چیزوں کو سطحی طور پر لیتے ہیں اور دور سے گہرائی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ویسے بھی سارے اندازے صحیح نہیں ہوتے ہیں اور صحیح اور غلط کی بحث کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا اس کے علاوہ بھی اپنے آپ پر نظر رکھنے کا سارے دانشور کہتے ہیں جبکہ ہم ایک دوسرے پر نظر رکھتے ہیں اور پھر ایک دوسرے سے بدظن ہو کر طعن وتشنیع کے تیر چلاتے ہیں جب سے جنگوں میں تیر کا استعمال ختم ہوگیا ہے ہم زبان سے تیر چلا کر یہ شوق پورا کرتے ہیں اور ہم ہوا میں بھی تیر چلاتے ہیں۔ اور ہوا بھی اپنی موج کی مالک ہے وہ جب چاہتی ہے رخ بدل لیتی ہے اور ہوا کے رخ بدلنے سے شاہ گدا اور گدا بادشاہ بن جاتے ہیں۔ اسے ہی تو تغیرات زمانہ کہتے ہیں لیکن زمانہ ساز لوگ ہوا کا رخ دیکھتے ہیں اور پھر اس کے حساب سے اپنے مستقبل کی راہوں کا تعین کرتے ہیں اور یوں آگے بڑھتے بڑھتے سفر آخرت اختیار کرتے ہیں۔ بے شمار چیزیں انسان کے اختیار میں نہیں ہیں اور جن پر انسان کا اختیار ہے ان میں سے بھی کچھ کے سلسلے میں وہ بے اختیار ہیں۔ اختیارات کی تو جنگ ہے اور اسی جنگ کے لئے انسان انسان کا دشمن بن چکا ہے۔ کاش دوست اور دشمن میں تمیز کر لی جاتی تو کسی سے بھی بدتمیزی کرنے کی نوبت پیش نہ آتی اور ہم سب کو زیر زبر اور پیش کے فرق کا واضح پتہ ہوتا۔یوں تو کائنات ارض وسما کا علم ہی بحر بے کراں ہے اور اس کے علاوہ بھی علوم کی فہرست سے آج تک انسان واقف نہیں ہو سکا اسی لئے اکبر الہ آبادی نے کچھ یوں کہا تھا( ہر بات پہ کہتا تھا من نمی دانم۔۔ یہ بات سچ ہے کہ اکبر بہت بڑا عالم تھا) بات من نمی دانم کے گرد گھومتی ہے اور سوشل میڈیا کے آنے کے بعد ہم سب ویسے ہی گھوم گئے ہیں۔ہم سب عالم بھی ہیں فقیہہ بھی ہیں مفتی بھی ہیں طبیب بھی ہیں دانشور بھی ہیں اور پھر اپنے تئیں اپنے آپ کو پتہ نہیں کیا کیا سمجھ بیٹھے ہیں۔ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے والے ویسے تو فارغ ہوتے ہیں اور بندہ فارغ ہو تو سوشل میڈیا پر بیٹھ کر سین کریٹ کرنے سے بہتر کوئی کام نہیں ہے ایک دفعہ خوب شور مچ جاتا ہے اور بندہ شہرہ آفاق ہو جاتا ہے۔ بدنام نہ ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔ صوفیا کو تو نام کمانے کے لئے مچ مچانا پڑتا تھا اور یہ تھا آگ کا مچ اور پھر آہستہ آہستہ عشق کی آگ بھڑک اٹھتی تھی اور ہر دیکھنے والا یہ ساری صورتحال دیکھ کر حیران ہو جاتا تھا۔ حیرانی خاموشی کو جنم دیتی ہے اور خاموشی سنجیدگی کی ابتدائی شکل ہے اور پھر لوں لوں بولتا تھا اور مچ سے علم و حکمت کے چشمے پھوٹتے تھے۔ یہ علم جیبیں بھرنے کے لئے نہیں ہوتا تھا اس سے دل کی زمین کی صفائی اور ستھرائی کی جاتی تھی۔ تب جا کر گفتگو میں شائستگی، نفاست اور سلاست پیدا ہوتی ہے اور ہر بات نئی بات تو نہیں ہوتی لیکن ہر بات دل میں اتر جاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے انقلابی تبدیلیاں وقوع پذیر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ افسوس اب تو تبدیلی بھی نام نہاد ہو چکی ہے اور وقتاً فوقتاً ہم تبدیلی کا لفظ بول کر ڈرامہ رچانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی توجہ ادھر ادھر کی جائے۔ ہم چیزیں ادھر ادھر کرنے کے خوگر بھی ہیں اور ماہر بھی ہیں کسی کا کچھ نہیں جائیگا ہم اپنے آپ کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ ہم سب کا ایک دن اوہلہ اتر جائیگا۔ جوش کے دریا نے بھی ایک دن اترنا ہے۔ جذبات کی دنیا میں محض شور شرابا ہوتا ہے۔ گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک بچی نے ساحل عدیم پر سوال دے مارا۔ سوال کی شدت نے دانشور مذکور کو اتنا ڈسٹرب کردیا کہ انہوں نے ساری گفتگو کو طاغوت کے حوالے کردیا اور پھر طاغوت تو ہمارا دشمن ہے اس سے خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ جب صورتحال کنٹرول سے بالکل ہی باہر ہو گئی تو خلیل الرحمان قمر کو اس میں پوری طرح چھلانگ لگا کر خوفناک طریقے سے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا پڑا۔ ایک وقت تھا مرد نے عورت کو دبا کر رکھا ہوا تھا۔ پھر صنف نازک کو اپنی صلاحیتوں کا احساس ہو گیا اور اس نے آگے سے بولنا شروع کردیا اور پھر ساحل عدیم اور خلیل الرحمان قمر جیسے سوشل میڈیا کے دانشوروں کی بولتی بند کردی۔ دھمکیاں اور پھر دھمکیاں۔ یہ سارا کچھ طاغوت کی چکر بازی ہے۔ دن کو ستارے نظر آگئے۔ تریلیاں آنا شروع ہو گئیں اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا۔ عورت مرد کے سامنے کھڑی ہوگئی ہے اور وہ بھی پوری شدت سے۔ اس کو کہتے ہیں تبدیلی۔ سارے دنیائے عالم کو سوشل میڈیا کی آنکھ سے بیک وقت دیکھا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ہم سب ننگے ہو گئے ہیں اور ہم تو ریٹنگ کے چکر میں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ بے شک اس سے ہمارا ملک ریٹنگ کے اعتبار سے مزید نیچے آجائے۔ ہمارا کیا جائے گا ہم تو ٹھہرے عالم فاضل اور دانشور۔ مذکورہ صورتحال انتہائی خوفناک ہے پہلے بھی ہم کئی فرقوں میں بٹ چکے ہیں۔ لسانی اور صوبائی مسائل بھی پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ بین الاقوامی طور پر ہمارا تاثر کوئی قابل ذکر نہیں ہے۔ مرد اور عورت کی لڑائی بھی ہم نے چھیڑ دی ہے۔ اور پھر نئی نئی بحثیں بھی چھیڑ دی ہیں۔ بحث و تمحیص کے بھی اصول وضوابط ہوتے ہیں اور علمی بحثوں کے لئے تو شرکا کی علمی استعداد کا بہت اچھا ہو نا شرط ہے۔ جب کہ ہم چلے ہیں ہنس کی چال اپنی بھی بھول بیٹھے ہیں۔ صبح کے بھولے کو شام سے پہلے گھر لانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سوشل میڈیا کو قانون کے دائرے میں لائے۔ معاشرے پر لازم ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف اپنا بھر پور ردعمل دیں۔ انفرادی طور پر مذکورہ میڈیا پر بات کرنے والوں کو پوری ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپنی گفتگو میں صبر۔تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔ ویسے بھی بحیثیت قوم ہم جذباتی ہورہے ہیں اس لئے تحمل اور برداشت کے بارے میں پوری آگاہی مہم چلانا ہوگی اور اس مہم پر کروڑوں روپے خرچ کر کے ایک نئے سکینڈل کو جنم دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ عملی طور پر چیزیں کرنے کی ضرورت ہے۔ جذباتی لوگوں کی زد میں متحمل مزاج اور سنجیدہ لوگوں کو سوشل میڈیا پر آنا ہوگا اور اپنے قول و فعل سے فرق واضح کرنا ہو گا۔ یوں علم کی روشنی پھیلے گی۔ ہم سب کی لرننگ ہوگی۔ نئے نئے ڈھولے نہیں بنیں گے۔ مختلف امور کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں موجود خدشات اور ابہام دور ہو جائیں گے۔ اچھی گفتگوکرنے کے سلیقے اور طریقے سے آگاہی ہو گی۔ سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار ناممکن ہے اب ہم نے اس کا مثبت استعمال کرنا ہے اور بہر حال ہم نے ہی کرنا ہے۔ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ سب سوالوں کے جواب دینا مشکل ہوتا ہے۔ جواب دینے کے لئے مہلت بھی لی جا سکتی ہے۔ عدالت بھی تو دلائل کی تیاری کی مہلت دے دیتی ہے۔ آج کا سوشل میڈیا عوامی عدالت ہے۔ کمی بیشی کی صورت میں مہلت کی درخواست کرنا خالی از حکمت نہیں ہوتا ورنہ خالی بھانڈے نے کھڑکنا ہوتا ہے اور پھر شور شرابہ اور ایسی حالت میں کانوں میں انگلیاں دینا پڑتی ہیں ویسے بھی انگلیاں اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ جگ ہنسائی اور رسوائی۔ نئی نسل کو مطمئن تو کرنا پڑے گا۔ مطالعہ بڑھائیں اور نئی نسل کے ہر سوال کا درست درست جواب دیں اور تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کریں۔
25