پاکستان کے مانچسٹر فیصل آباد میں چور’ ڈاکو اور پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کے ہاتھوں شہری اور کاروباری طبقہ وچھوٹے تاجر انتہائی پریشان ہیں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب شہر میںوارداتیں نہ ہونے کی خبر ملے روزانہ 80سے لیکر 100 تک وارداتیں ہو رہی ہیں دن دیہاڑے قیمتی سامان مال وزر چھین لیا جاتا ہے مویشی چوری موٹرسائیکلیں آٹو اور چنگ چی رکشے چھین لئے جاتے ہیں خواتین کے اغواء کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جبکہ شہر میں بھتہ مافیا کی سرگرمیاں بھی جاری ہیں شہری جرائم پیشہ عناصر سے ہر وقت خوفزدہ رہتے ہیں ”مددگار” 15پر رپورٹ ہونے والی وارداتوں کے علاوہ بھی درجنوں وارداتیں ایسی ہیں جن کو ریکارڈ پر نہیں لایا جاتا فیصل آباد اور گرد ونواح میں ڈاکوئوں’ چوروں کے گینگ شہریوں کے گھروں میں گھس کر اہل خانہ کو یرغمال بنا کر گھروں سے طلائی زیورات’ لائسنسی اسلحہ’ قیمتی سامان اور گاڑی یا موٹرسائیکل بھی لوٹ کر فرار ہو جاتے ہیں ان گینگز میں ایسے ملزمان بھی ہیں جو گھروں میں لگے سکیورٹی سسٹم کو ناکارہ بنانے میں بھی ماہر ہیں اور یوں پولیس ایسے گروہوں’ گینگز اور چوروں کا سراغ لگانے میں ناکام رہتی ہے شہری خاص طور پر تاجروں کی بڑی تعداد فیصل آباد میں جرائم کی بے قابو لہر سے خوف زدہ ہیں اور ذاتی سکیورٹی رکھنے پر مجبور ہیں شہر میں کاٹن مارکیٹ کے علاوہ کپڑے کی بڑے پیمانے پر تجارت کیلئے بڑی بڑی مارکیٹیں موجود ہیں جہاں اربوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے ان مارکیٹوں کی سکیورٹی بھی صرف سکیورٹی گارڈز کے ذمہ ہے پولیس کی جانب سے ان کاروباری مراکز کی سکیورٹی اور کاروباری افراد کے تحفظ کیلئے کوئی خاص انتظامات نہیں کئے جا رہے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے ایک جانب تو ڈاکوئوں’ چوروں نے کاروباری لوگوں کو نشانہ بنا رکھا ہے تو دوسری جانب گراں فروشی کی روک تھام کی آڑ میں پرائس کنٹرول مجسٹریٹس نے کاروباری طبقہ اور تاجروں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے کبھی نرخناموں کے نہ ہونے کبھی اشیاء کے معیار کبھی سرکاری نرخوں پر اشیاء کی فروخت نہ کرنے کا بہانہ بنا کر پرائس کنٹرول مجسٹریٹس دکان داروں’ مارکیٹوں اور شاپنگ سنٹرز مالکان کو من مرضی کے جرمانے عائد کر رہے ہیں اگر کوئی دکان دار’ تاجر یا مارکیٹ وشاپنگ سنٹر کا مالک اپنے دفاع میں کچھ کہنا چاہتے تو اس کو گرفتار کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں’ شہر کے مختلف علاقوں میں فیکٹری’ پلازہ مالکان’ میگامارٹس’ تاجروں’ دکانداروں اور دیگر افراد کو کئے جانے والے جرمانوں کا مبینہ ریکارڈ بھی موجود نہیں’ تاجروں اور کاروباری حضرات کی شکایات پر ڈپٹی کمشنر وڈسٹرکٹ کلیکٹر عبداﷲ نیئر شیخ نے آنکھیں بند کر لیں اور ڈویژنل کمشنر سلوت سعید نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے کاروباری حلقوں کا کہنا ہے کہ پرائس کنٹرول مجسٹریٹس نے کاروباری افراد کے ناک میں دم کر رکھا ہے اور گراں فروشی کی آڑ میں بھاری جرمانے کرنا معمول بنا رکھا ہے ڈپٹی کمشنر کو تاجروں کی جانب سے کی جانے والی شکایات کو ردی کی ٹوکری کی نذر کیا جا رہا ہے پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کو کوئی پوچھنے والا نہیں’ انتظامیہ کی اس روش پر شہریوں میں غم وغصہ پایا جاتا ہے کہ جب شہر کے بڑے تاجروں’ پلازہ مالکان اور کاروباری طبقہ کو پرائس مجسٹریٹس کسی خاطر میں نہیں لاتے تو گلی محلوں میں چھوٹے دکان داروں کی کون سنے گا اور یوں پرائس مجسٹریٹس من مرضی کے جرمانے کرتے رہیں گے اور کمشنر وڈپٹی کمشنر کوئی نوٹس نہیں لیں گے یہ تو سراسر زیادتی کے مترادف ہے ایک طرف جرائم پیشہ عناصر نے شہریوں’ تاجروں اور کاروباری طبقہ کی زندگی مشکل بنا رکھی ہے کوئی کاروباری آدمی کسی تجارتی ڈیل کیلئے کیش ساتھ نہیں لیجا سکتا جبکہ دوسری جانب کاروباری افراد کو پرائس مجسٹریٹس نے گراں فروشی روکنے کی آڑ میں نشانے پر رکھا ہوا ہے، ڈویژنل کمشنر اور ڈپٹی کمشنر تاجروں کی شکایات کا نوٹس نہ لینے پر اپنے فرائض منصبی سے پہلو تہی کر رہے ہیں جو افسوسناک ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کو اس کا نوٹس لیکر چیف سیکرٹری اور آئی جی کو فیصل آباد میں جرائم کی بڑھتی وارداتوں اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے فیصل آباد کے تاجروں’ فیکٹری’ پلازہ مالکان اور کاروباری افراد کو پرائس مجسٹریٹس کے ہاتھوں گراں فروشی کی روک تھام کی آڑ میں بھاری جرمانے کرنے اور تاجروں کی شکایات کا ازالہ نہ کرنے کے بارے میں بازپرس کا حکم دینا چاہیے۔
20