44

نئے پاکستان کا تاریخی پس منظر

ملک بلال لطیف
نیا پاکستان ایک ایسی اصطلاح ہے جس سے پاکستان میں ہرخاص وعام واقف ہے۔ بہت سے لوگ اس اصطلاح میں ترقی یافتہ اور آئیڈیل پاکستان دیکھتے ہیں اور کئی اسے محض سازشی بیانیہ اور پروپیگنڈا گردانتے ہیں۔ اگر پاکستان کی تاریخ کو قریب سے پرکھا جائے تو ایسے کئی بیانیے اور نیا پاکستان بنانے کے دعویدار نظر آتے ہیں۔ بلکہ اس ملک میں جو بھی اقتدار کے ایوانوں میں آیا اس نے اپنا ہی ماڈل لانچ کیا۔ سب سے پہلے فیلڈ مارشل ایوب خان نے لبرل اور ماڈرن طرز کا پاکستان متعارف کروایا۔ عموماً ایوب خان کا دور پاکستان کے سنہری سالوں میں شمار کیا جاتا ہے، اس دور میں بڑے بڑے ڈیم اور انفراسٹرکچر تعمیر ہوئے جن سے آج بھی استفادہ حاصل کیا جا رہا ہے۔ دراصل یہ انفراسٹرکچر امریکی امداد سے بنائے گئے’ جو کمیونزم کے خلاف امریکہ کے لئے پاکستان کی خدمات کا صلہ تھا۔ ایوب خان کے نئے پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام کی حکمرانی تھی’ جس کی براہ راست کمان ہاورڈ ایڈوائزری گروپ کر رہا تھا۔ اس گروپ کی معاشی پالیسیاں ایک خاص طبقہ نواز تھیں’ جو چند ہی سالوں میں پاکستان کی تقریبا 80 فیصد دولت پر قابض ہو گیا۔ تاریخ اس طبقہ کو ”22خاندانوں” کے نام سے نقش کرتی ہے۔ اس کے برعکس ایک نہایت غریب اور مفلس طبقہ بھی پیدا ہوا، جو اس سرمایہ دارانہ نظام کو اپنی محرومیوں اور استحصال کا ذمہ دار قرار دیتا تھا۔ مورخین دعویٰ کرتے ہیں کہ ایوب خان کے اسی استحصالی پاکستان میں بنگلہ دیش کا بیج بویا گیا’ کیونکہ اس دور میں جو بھی ترقی ہوئی اس کا محور سینٹرل پنجاب اور کراچی تھا، جس نے مشرقی پاکستان کے پسماندہ لوگوں میں باغیانہ رحجانات کو جنم دیا۔ بہرحال ایوب خان کا پاکستان اس لحاظ سے منفرد تھا کہ اس میں لبرل ازم کا بیانیہ اور اخبارات اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ یہاں تک کے مادر ملت فاطمہ جناح تک کو نہ بخشا گیا’ ان کو نازیبا اور غدار جیسے القابات سے نوازا گیا۔ ایوب خان کی انہی جابر اور استحصالی پالیسیوں نے بھٹو کے عوامی انقلاب کی راہ ہموار کی۔ بھٹو کا روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ دراصل ایوبی دور کے پسے ہوئے طبقہ کی آواز تھی۔ بھٹو سوشلسٹ نظریہ کے پیروکار تھے اور انہوں نے اقتدار میں آکر بڑے بڑے کارخانوں، انشورنس کمپنیوں اور بینکوں کو قومی تحویل میں لے لیا۔ اسی طرح جاگیر دارانہ نظام کے خاتمہ کے لئے بڑے پیمانے پر زرعی اصلاحات کرائیں گئیں’ جس کی بدولت کل کے مزارع راتوں رات اسی زمینوں کے مالک بن گئے۔ بلاشبہ بھٹو ایک کرشماتی شخصیت کے مالک تھے، OICکانفرنس میں اسلامی دنیا کے اہم رہنمائوں کی شرکت اور قومی اتفاق رائے سے 1973 کے قانون کا نفاذ، ان کی اسی کرشماتی وصف کو ظاہرکرتے ہیں۔ دوسری طرف بھٹو کے ناقدین ان کو ایک جابر سول حکمران کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں۔ ان کے بقول بھٹو کے دور میں اختلاف رائے ناممکن تھا بلکہ بھٹو کی بنائی گئی فیڈرل سکیورٹی فورس کا تو کام ہی حزب اختلاف کے منہ بند کرنا تھا۔ بلوچستان حکومت کا خاتمہ اور بلوچ سرداروں کی نظر بندی’ ان کے آمرانہ طرز حکومت کی عکاسی کرتے ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ بھٹو کا یہی آمرانہ رویہ ان کے زوال اور جنرل ضیاء الحق کو اقتدار میں پہنچانے کا سبب بنا۔ تاریخ میں جنرل ضیاء الحق کا تعارف ایک کٹر مذہبی شخصیت کی حیثیت سے درج ہے۔ شاید اس کی وجہ ان کے دور کی اسلامائزیشن کی پالیسیاں تھیں۔ بعض تو الزام دیتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کا لبادہ محض اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے اوڑھا تھا۔ اور جواز کے طور پر بھٹو کا ناحق عدالتی قتل اور نوے دن کے بعد الیکشن کروانے کے وعدے سے مکر جانے کو پیش کرتے ہیں۔ بلاشبہ جنرل ضیاء الحق کا پاکستان تنگ نظری کا مظہر تھا جس نے پاکستان میں انتہا پسندی اور فرقہ واران فسادات کو ابھارا۔ جنرل ضیا الحق کے دور کا سب سے اہم واقعہ پاکستان کی افغان جنگ میں شمولیت تھی۔ چالیس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین
پاکستان آئے جو نہ تو پڑھے لکھے اور نہ ہی کسی کام میں مہارت رکھتے تھے۔ اور پھر بس دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان خطہ میں اسلحہ اور منشیات کا ڈپو بن گیا۔ 1989 میں افغان جنگ تو اختتام پذیر ہوگئی مگر پاکستان میں کلاشنکوف کلچر اور نوجوان نسل میں نشہ کی لت اپنی وراثت میں چھوڑ گئی۔ جزل ضیاء الحق کے بعد ان کے سیاسی سپوت میاں نواز شریف کا نعرہ ”جاگ پنجابی جاگ” نیا پاکستان تو نہ بنا سکا مگر ان کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کیلئے کافی کارگر رہا۔ اور پھر ایک طویل سیاسی رسہ کشی اور افراتفری کے بعد جنرل پرویز مشرف کا نیا پاکستان لانچ ہوا۔ جنرل پرویز مشرف ترکی کی طرح پاکستان کو ایک جدید اسلامی ریاست بنانے کا خواہاں تھا۔ عورتوں کی مخصوص نشستوں میں ایک بڑا اضافہ، خود مختار بلدیاتی ادارے اور پرائیویٹ میڈیا انڈ سٹری کا قیام، مشرف کے دور کے اہم کارنامے تھے۔ ساتھ ہی مذہبی انتہاپسندی اور خودکش دھماکے، پاکستان میں مشرف کی میراث سمجھے جاتے ہیں۔ اس نے پہلے تو11/9 کے بعد پاکستان کو امریکی جنگ میں جھونکا اور پھر لال مسجد کا فوجی آپریشن کر کے پاکستان کو ایک مستقل جنگ میں دھکیل دیا۔ اور جو کسر باقی تھی وہ بلوچ سردار اکبر بگٹی کا قتل کروا کر پوری کر دی۔ پاکستان دہشتگردی کی اس جنگ میں اب تک 80 ہزار سے زائد اموات اور اربوں ڈالروں کا نقصان برداشت کر چکا ہے۔ مشرف کے بعد عمران خان نے ریاست مدینہ کی طرز کا نیا پاکستان بنانے کا علم بلند کیا۔ ایسا پاکستان جس میں قانون کی حکمرانی یقینی اور IMF کے لئے کوئی گنجائش نہ تھی۔ کرپشن کرنا حرام اور کرپٹ انسان کا سولی چڑھنا لازم تھا۔ مگر عمران خان کے اقتدار میں آتے ہی ہوائوں کا رخ بدل گیا۔ نہ صرف IMF کے لئے گنجائش بنی بلکہ ریکارڈ توڑ کرپشن ہوئی۔ مہنگائی کا سمندر آیا اور عوام کی تمام امیدیں بہا لے گیا۔ دراصل پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس پر کافی نظریات کا تجربہ ہو چکا ہے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ یہ نظریات ناقص ہیں کیونکہ بہت سے ممالک ان نظریات کے ساتھ بھی ترقی کر چکے ہیں۔ پاکستان کے معاملے میں مسئلہ نظام میں نہیں نظام کو چلانے والوں میں رہا ہے۔ اور اب وقت کی ضرورت نیا پاکستان نہیں پرانا پاکستان ہے ایسا پاکستان جس کا خواب اقبال نے دیکھا اور قائد اعظم نے پروان چڑھایا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں