18

آئینی ترمیم ہوگی یا نہیں؟نظر سپریم کورٹ پر

اسلام آباد (بیوروچیف) آئین کی دفعہ 63-اے کی اپیل کا فیصلہ،آئینی ترامیم پارلیمانی ایوانوں میں پیش کرنے کے وقت کا تعین کریگا ۔ سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کا فیصلہ آنے کے 72گھنٹے میں پارلیمنٹ کے اجلاس طلب ہو جائیں گے،ترامیم کی حمایت میں ووٹ دینے والوں کے خلاف ریفرنس طویل عدالتی جنگ کا شکار ہو جائیں گے۔ دونوں پارلیمانی سیکریٹریٹس نے ہوم ورک مکمل کرلیا،حزب اختلاف میں سنی اتحاد کونسل اور تحریک انصاف کے طور پر شناخت کے تنازع کی وجہ سے وہپ ہی متنازع رہے گی ،دونوں ایوانوں سے الگ الگ دو تہائی حمایت سے ہی ترامیم منظور ہو سکیں گی ،ایک ایوان سے ترامیم منظور نہ ہوئیں تو کوڑے دان میں چلی جائیں گی،یہ تاثر درست نہیں کہ ایک ایوان سے مسترد ہونے پر ترامیم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور ہو سکیں گی اسکی گنجائش صرف عام قا نون (ایکٹ) کے لئے دستیاب ہے۔ آئین کی دفعہ – 63اے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں زیرسماعت جائزے کی اپیل کا فیصلہ عدالتی اصلاحات کیلئے درکار آئینی ترامیم کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا نظام الاوقات متعین کرے گا۔ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سیکرٹریٹس نے اپنا ہوم ورک مکمل کرلیا ہے۔ حد درجہ قابل اعتماد پارلیمانی ذرائع نے بتایا ہے کہ یہ تمام تر تیاریاں اس توقع/ مفروضے کی بنیاد پر کی گئی ہیں کہ ملک کی عدالت عظمی آئین میں انڈیلی گئی اس تحریف و تبدیلی کو موقوف کردے گی جو کم و بیش اڑھائی سال قبل سیاسی بنیادوں پر صادر کئے گئے ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے ماوری آئینی طورپر ممکن بنائی گئی تھی۔ 1973کے آئین کی شرح سے کسی بھی پارلیمانی کارکن اگر وزیراعظم/ وزیراعلی کے چناو، انکے خلاف عدم اعتماد، بجٹ کی منظوری یا اسے مسترد کرنے اور کسی آئینی ترمیم کی منظوری یا اسے مسترد کرنے کیلئے اپنی پارلیمانی پارٹی کی وھپ (پارٹی کی ہدایت) کے منافی اپنا ووٹ استعمال کرتا ہے تو ایسا کرنے کے بعد اسے رکنیت سے محروم ہونا پڑے گا۔ رکنیت ساقط کرنے کیلئے اسکی پارٹی کو نوٹس جاری کرکے انکا موقف سنے گا جسکی روشنی میں رکنیت کا فیصلہ کرے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں