33

آئینی وسیاسی بحران کا حل ایک ہی روز انتخابات (اداریہ)

موجودہ آئینی وسیاسی بحران نے پوری قوم کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے بحرانوں کی وجہ سے ملکی معیشت دائو پر لگی ہے حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے محاذوں پر ڈٹی ہوئی ہے اداروں کے خلاف تنقید ہو رہی ہے اقتدارسے باہر بیٹھے سیاستدان جلد اقتدار میں آنے کیلئے بے چین ہیں اور حکمران اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کیلئے کوشاں ہیں ملک میں مہنگائی نے عوام کا جینا مشکل بنا رکھا ہے اشیاء خوردونوش کی قلت پیدا کر کے منہ مانگے داموں پر انہیں فروخت کیا جا رہا ہے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر دن بدن کم ہو رہے ہیں غیر ملکی قرضے ڈالر کی اڑان کے باعث بڑھتے جا رہے ہیں یہ سلسلہ کہاں جا کر رُکے گا اس کے آثار نظر نہیں آ رہے آئینی ماہرین کے خیال میں ملک میں فوری انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے اتحادی حکومت ملک میں ایک ہی روز قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرانا چاہتی ہے مگر PTi پہلے دو صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن چاہتی ہے اس کے بعد قومی اسمبلی کے الیکشن چاہتی ہے اکتوبر زیادہ دور نہیں لہٰذا اگر عمران خان اور ان کی جماعت کی مرکزی قیادت ملک میں ایک ہی روز انتخابات کیلئے رضامندی کا اظہار کریں تو آئینی وسیاسی بحران کا حل ممکن ہے! جمہوریت’ جمہوریت کی گردان کرنے والے ہمارے سیاستدانوں کا اقتدار کے لیے دھینگا مشتی کرنا سیاسی منافرت کو پھیلانا اور گلی محلے کی سطح پر عوام کو اپنے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے کر دینا آخر کس طرز کی سیاست ہے؟ سیاست دانوں میں سیاسی کشیدگی اب ذاتی دُشمنی اور انتقام میں تبدیل ہو چکی ہے جس کی وجہ سے قومی اتحاد واتفاق’ ہم آہنگی سیاسی واخلاقی اقدار کے ساتھ ساتھ جمہوریت اور انصاف کا دھڑن تختہ ہو چکا ہے جمہوریت کی آڑ میں شخصی آمریت کے فروغ پانے سے نہ صرف عالمی سطح پر ملک کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے اس سے معاشرے کا ہر شعبہ بُری طرح متاثر بھی ہو رہا ہے ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باعث زراعت’ صعنت’ تجارت اور مجموعی طور پر معیشت کی تباہی کی ذمہ داری براہ راست ہمارے سیاستدانوں پر ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے قومی مسائل کو حل کرنے کے بجائے عوام کو مہنگائی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے، غربت’ بے روزگاری کے عذاب سے بچانے کے بجائے سیاستدان اپنی توجہ ایک دوسرے کو گرانے پر مرکوز کئے ہوئے ہیں جو سیاستدان بھی اقتدار میں آیا اس نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے ہر طرح کے حربے استعمال کئے اور اپنے سیاسی مخالفین کو کھڈے لائن لگانے کیلئے غیر آئینی’ غیر قانونی’ غیر جمہوری ذرائع بھرپور طریقے سے استعمال کئے انہیں ملک وقوم کی ترقی وخوشحالی کیلئے قابل عمل پالیسیاں تشکیل دینا کبھی بھی یاد نہیں آیا بیرونی قرضوں پر انحصار کیا آج اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت قرضوں کے بوجھ تلے بُری طرح دب چکی ہے اور آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کیلئے ہماری حکومت عالمی مالیاتی فنڈ کی ہر شرط پر عمل کرنے کیلئے تیار ہے مگر پھر بھی آئی ایم ایف حکام دیگر ممالک سے ضمانت چاہتے ہیں! پون صدی سے آزاد ملک پاکستان آج تک اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکا اور اس کے ذمہ دار سیاستدان ہی ہیں جو صرف حصول اقتدار کے لیے غیروں کے قدموں میں گرنے پر بھی تیار رہتے ہیں آج جو ملک کے عوام کے حالات ہیں ان کو دیکھ کر رونا آتا ہے غریب عوام کی زندگی عذاب بنتی جا رہی ہے مگر اس کے مسائل حل نہیں کئے جا رہے پچھلے ایک سال سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان عدلیہ کے ایوانوں اور سڑکوں پر لڑی جانے والی لڑائی نے پاکستان کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار کر رکھا ہے عدالت عظمی میں معزز جسٹس صاحبان بھی ازخود نوٹس کے کیس میں تقسیم ہو چکے ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سیاستدانوں کی غلطیوں کیوجہ سے ادارے بھی متنازعہ ہو رہے ہیں مگر سیاسی قوتیں اس جانب توجہ دینے کے بجائے اپنی اپنی کامیابیوں پر شادیانے بجانے میں مصروف ہیں موجودہ سیاسی حالات کا تقاضا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی قوتیں ہوش کے ناخن لیں ملکی سلامتی’ سیاسی استحکام’ معیشت کی بہتری’ مہنگائی کے خاتمے’ عوامی بے چینی دور کرنے’ ملکی ترقی کیلئے مل بیٹھیں اور مثبت انداز میں اتفاق واتحاد سے فیصلے کریں جہاں تک ملک میں انتخابات کا تعلق ہے تو اس کیلئے یہی بہتر حل ہے کہ پورے ملک میں ایک ہی روز الیکشن کا انعقاد کیا جائے اور اس کے نتیجے میں جو بھی سیاسی جماعت اپنی اکثریت ثابت کرے اس کے اقتدار حوالے کیا جائے اور الیکشن کے نتائج خوش دلی سے قبول کئے جائیں میں نہ مانوں والی ضد نہ کی جائے خدارا ملک اور ملک میں رہنے والوں کو دنیا میں تماشا نہ بنایا جائے اپوزیشن اپنی ضد اور سڑکوں پر آنے کے بجائے مذاکرات کی راہ اپنائے حکمران بھی اپنے اندر لچک پیدا کریں تاکہ بات آگے بڑھے یہی وقت کا تقاضا ہے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں