42

آزاد امیدواروں کے پاس کیا آپشنز

اسلام آباد (بیوروچیف)الیکشن قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آزاد امیدواروں کی سیاسی جماعتوں میں شمولیت قانونی طور پر لازم نہیں، یعنی وہ چاہیں تو آزاد حیثیت میں قومی یا صوبائی اسمبلی میں رہ سکتے ہیں۔تاہم اکثر مختلف وجوہات کی بنا پر ان سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کا حصہ بن جائیں گے۔ سیاسی تجزیہ کار رفیع اللہ کاکڑ کے مطابق کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے پیچھے ایک آزاد امیدوار کا مقصد اپنا سیاسی کیریئر بنانا، سیاسی طور پر کسی ایک نظریے سے خود کو منسلک کرنا یا پارلیمان میں زیادہ فعال کردار ادا کرنا ہوسکتا ہے۔گفتگو کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ جیتنے کے بعد ان امیدواروں کے پاس تین دن کا وقت ہوگا جس دوران انھیں کوئی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوگی۔وہ کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے قواعد کے مطابق آزاد امیدوار صرف اسی پارٹی میں شامل ہوسکتے ہیں جس کا انتخابی نشان انھیں بیلٹ میں دیا جاتا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف اب فعال نہیں تو یہ ان آزاد امیدواروں کے لیے بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ کس پارٹی کو جوائن کرتے ہیں۔الیکشن سے قبل تحریک انصاف کے رہنماں کی طرف سے یہ عندیہ دیا گیا تھا کہ وہ ایک ساتھ کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر کے اس سے الحاق کر سکتے ہیں۔ رفیع اللہ کاکڑ نے کہا کہ دو باتیں ہوسکتی ہیں۔ انتخابی نشان نہ ملنا ایک طرف، ان آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی میں شامل ہونے دینا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ اگر یہ چاہیں تو پیپلز پارٹی اور ایک چھوٹی جماعت کے ساتھ مل کر حکومتی اتحاد بنا سکتی ہیں۔سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اس وقت ایک منقسم مینڈیٹ سامنے آ رہا ہے جس کے نتیجے میں حکومتی اتحاد ضروری ہے۔کیا آزاد امیدوار اپنا وزیرِ اعظم منتخب کرسکتے ہیں مثال کے طور پر اگر ان کے پاس 266 کی اسمبلی میں 134 نشستیں ہیں تو وہ ایسا بالکل کرسکتے ہیں۔تاہم انھوں نے کہا کہ آزاد امیدواروں کی جانب سے اپنا وزیرِ اعظم منتخب کرنا پریکٹیکل نہیں سمجھا جاتا لیکن اس کے بارے میں قانون میں کوئی قدغن نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں