9

آہ… رضوان ہندل بھی چل بسے……

وہ فیصل آباد سے ٹرانسفر کے بعد میری اسلام آباد میں سردیوں بھری پہلی شام تھی ،پنجاب کی گرمی سے نکلنے والوں کے لئے اسلام آباد کی ہر شام ہی انتہائی حسین ہوا کرتی ہے ۔۔مگر اس شام کی خنکی ہی عجیب قسم کی تھی پولیس لائنز سے آئی جی کی فارمل میٹنگ سے فری ہو کے ہم سب کی گاڑیاں جی الیون کے سگنلز پر رکیں تو شائد ہم چند کرائم رپورٹرز کے ذہن میں ایک ہی بات تھی کیوں نا ایک ہی گاڑی میں سوار ہو کے آج پہاڑوں پر جایا جائے ،مری کی طرف سے چھائے بادل موسم کی تباہی کی داستان سنا رہے تھے مگر جی 8 کے سگنلز پر فیصلہ ہو چکا تھا مری نہیں شاہ اللہ دتہ جائیں گے شاہ اللہ دتہ کی سب سے اونچی اور آخری پہاڑی ہی ہو گی وہ شاید جہاں پہاڑوں کو کاٹ کر وہ ریسٹورنٹ بنایا گیا تھا ،جہاں ہم صرف چائے کا ایک کپ پینے پہنچے تھے۔۔ چائے کے انتظار میں پکوڑوں پر ہاتھ صاف کرتے میرے ہاتھ اچانک رکے اور منہ میں پکوڑا بھی دبایا رہ گیا ۔۔کیا ہوا مرچیں تو نہیں کھا لیں ساتھ بیٹھنے والوں نے میری حالت سے محفوظ ہوتے پوچھا ۔۔نہیں ۔۔۔شششش۔۔۔چپ ۔۔۔ایک منٹ چپ ۔۔۔آواز ۔۔۔یہ رضوان کی آواز لگ رہی ہے ۔۔۔میری حیرت کے مارے آنکھیں باہر تھیں ۔۔جہاں لگ رہا تھا کوئی جان پہچان والا نہیں ملے گا وہاں مجھے فیصل آباد میڈیا سے وابستہ رضوان کے موجودگی کا شبہ ہو رہا تھا یہ رضوان کون ہے؟ بتایا فیصل آباد میڈیا میں کولیگ ہے بولے بس اسکا بھوت کوئی سوار ہو گیا تم پر ۔۔فیصل آباد کی باتیں فیصل آباد میں چھوڑ دیں یہاں سے کدھر آگیا ۔مگر آواز رضوان کی تھی ۔۔اسکی آواز ہی الگ ہوتی تھی ہلکی سی نسوانیت لئے نرم سے میٹھی سی دور سے پہچانی جاتی تھی مگر میں اتنی شاکڈ تھی کہ وہیں بیٹھے اخلاقیات کو سائڈ پر رکھ کر زور سے آواز لگائی رضوان ۔۔اس سے پہلے کہ ساتھ بیٹھے مجھے روکتے کی ہماری بھی عزت کا جنازہ نکالو گی کیا دوسری آواز زیادہ گونج دار تھی رضوان ۔۔اور ساتھ ہی رضوان کہیں سے نکل کے سامنے آگیا ۔۔مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اسکو دیکھ کر خوشی کا اظہار کروں کیا کروں۔۔تم ادھر کدھر سنسنان پہاڑوں کے جنگل میں ۔۔منہ سے بس یہی نکل سکا تھا میری پی ٹی وی جاب ہو گئی ہے فرزانہ میں ادھر ہی ہوتا ہوں فرزانہ ادھر آ تمہیں دوستوں سے ملوائوں انکے ساتھ آیا تھا اور مجھے انتہائی صدمہ ہوا تھا کہ رضوان ادھر کیوں آیا مجھے لگا تھا اب یہ باقیوں کی طرح جا کے رنگ برنگی باتیں کر کے بھنڈے گا مجھے رضوان کو دیکھ کر بالکل خوشی نہیں ہوئی تھی ۔۔۔وہ میری رضوان کے ساتھ فیصل آباد کے بعد اسلام آباد میں پہلی ملاقات تھی جس کے بارے فون کر کے میں نے اپنی دوست شائستہ کو بھی بتایا تو وہ کھلکھلا کے ہنسی بولی تمہارے فرشتے ادھر بھی پہنچ گئے حیرانگی ہے ۔۔رضوان فیصل آباد میں کرائم رپورٹر تھا ۔۔میری وہاں اس سے اچھی دعا سلام تھی ۔۔دوسری ملاقات بحریہ انکلیو میں ہوئی جب برستی بارش میں اسکی بائیک عین میری گاڑی کے سامنے خراب ہو کے رکی ،وہاں بھی مارے صدمے کے اس سے اتنا ہی پوچھ سکی اب ادھر کدھر اس نے بتایا کہ میرا دوست رہتا ہے اس سے ملنے آیا تھا ۔۔میں بھی ایک دوست سے ملنے آئی تھی بس اتنا ہی کہہ سکی اور برستی بارش میں اسے ویسے ہی چھوڑ کر نکل آئی ۔۔مگر وہ کہیں نا کہیں مل جاتا تھا وقت کے ساتھ پتہ چلا ہمارے بہت سے میوچل فرینڈز ہیں ۔۔ کبھی ایف سکس مرکز میں کبھی پریس کلب اسلام آباد کبھی ٹریل تھری کبھی اسلام آباد کلب ۔۔۔کہیں نا کہیں سامنا ہو جاتا تھا وقت کے ساتھ یہ بھی پتہ چلا کہ کہ وہ ذہنی طور پر بہت مختلف ہے ۔۔ خواتین کو احترام دینے والا ،عزت کرنے والا ،راز کو اگلنے والا ۔۔میری اسکی بنتی گئی ۔۔گھر سے ناشتے میں مسز سے گرم گرم پراٹھے بنوا کے لانے ،اور آفر کرنی میرے گھر لازمی آنا۔۔سرینا کے پاس بنے پیٹرولیم پر میں نے گاڑی سروس کے لئے دینی اسکے کیفے ٹیریا میں بیٹھ کر رضوان کو فون کرنا وہ دس منٹ میں گرم ناشتے کے ساتھ ادھر ہوتا تھا ،آفس کا کوئی مسئلہ پرسنل ایشوز پی ٹی وی کی پارکنگ میں گاڑی جا رکتی تھی کبھی پی ٹی وی کی کینٹین ،کبھی کوئی ریسٹورنٹ ۔۔۔ وہ دوستوں کے معاملے میں شاہ خرچ تھا پتہ نہیں چلتا تھا بل کی ادائیگی ہو جاتی تھی میں نے شرمندہ ہونا رضوان یار میری تنخواہ تم سے زیادہ ہے سہولیات بھی میری زیادہ ہے تم ایسے نا کیا کرو اس نے کہنا اچھا اگلی بار سہی ،اور وہ اگلی بار کبھی نہیں آئی ۔۔میں نے تنگ آکے اسکے ساتھ کویٹہ کیفے بیٹھنا شروع کر دیا جہاں چائے کا کپ ہی ساٹھ روپے تھا ،لو اب دو خوشی سے بل ۔۔سچ تو یہ ہے دوستوں کے ساتھ فیاضی برتنا میں نے اس سے ہی سیکھا تھا ،راز کو راز رکھنا بھی اس سے سیکھا تھا وہ میری کتنی باتوں کا رازدار تھا ۔۔مگر کبھی نا فیصل آباد سے نا ہی کبھی اسلام آباد سے لوٹ کے میرے پاس واپس آئیں شائد کسی کے علم میں یہ بھی نہیں تھا کہ ہمارا رابطہ اس قدر گہرا ہے مجھے یاد ہے جب مارگلہ ٹائون کے عین سامنے ایک شام شدید بارش میں میری گاڑی پھنس گئی مجھے یقین تھا میں کہیں پھنس جائوں گی۔۔ ذہن میں رضوان آیا کال کی کہ لوکیشن بھیجو اور پکوڑے کھانے ہیں میں نے ا رہی ہوں ۔۔ٹھیک بیس منٹ بعد رضوان کے گھر تھی ۔۔رضوان اور اسکا بیٹا خوشی سے مجھے ریسیو کرنے آئے ،لاونج سے ملحقہ کچن سے پکوڑوں کی خوشبو پاگل کر رہی تھی تو ایسے میں اسکے بیٹے کی آواز کانوں میں گونجی ۔۔ماما پاپا کہہ رہے تھے کہ دوست نے ملنے گھر آنا ہے ریڈی ہو جا مگر دیکھیں یہ تو مجھے تو وہ دوست لڑکی لگ رہی ہے ۔۔اور اسکی اس معصوم بات پر ہم کتنی دیر تک ہنسے تھیاس شام نا بارش رکی نا پکوڑوں پر ہاتھ یہی نہیں بھابھی نے کھانا بھی بنا لیا تھا ۔۔اور وہ شام گویا میری عید کی شام تھی مجھے جاننے والے جانتے ہیں کہ گھر کا کھانا سامنے دیکھ کر میری خوشی اور بھوک کی انتہا کیا ہوتی ہے۔۔وہ میری ہر کامیابی پر خوش ہوتا تھا اپنے سرکل میں انتہائی فخر سے مجھے متعارف کرواتا تھا ۔مگر ایک بار جب اس نے اپنے ایک انتہائی ہینڈسم دوست کو مجھے یہ کہہ کر متعارف کروایا کہ میری بہن ہے تو وہ وہیں ریزرو ہو گیا دو گھنٹے بیٹھے رہے وہ آپ جناب کے علاہ بات نہیں کر سکا اسکے جانے کے بعد میں نے رضوان کو شاہ اللہ دتہ کے بعد دوسری بار اتنے صدمے سے دیکھا تھا کیا ہوا ۔۔۔میری نظریں بھانپ کے اس نے پوچھا تھا ۔۔تمہیں مجھے بہن کہہ کر متعارف کروانے کی کیا ضرورت تھی رضوان یہ سراسر بدتمیزی ہے ایسے تو اگلا بندہ انتہائی محتاط ہو جاتا ہے۔۔کیا یہ کافی نہیں ہم اچھے دوست ہیں ۔۔تو وہ بات سمجھ کر پھر کتنی دیر ہنستا گیا بولا معلوم ہے تم حسن پرست ہو ،دل پھینک نہیں ہو پھر اتنا صدمہ کس لئے ۔۔مگر مجھے واقعی تمہارا بہن کہہ کر متعارف کرانا اچھا نہیں لگتا ہر کوئی ریزرو ہو جاتا ہے ۔۔مجھے واقعی اس روز دکھ ہوا تھا ۔۔لیکن رضوان نے میری اس بات کو بہت انجوائے کیا تھا ۔۔اکثر کہنا تمہاری شادی پر میں بھنگڑا بھی ڈالوں گا اور ہوائی فائرنگ بھی کروں گا بس تم شادی کے متعلق سوچنا شروع کرو ۔۔ایک بار بیٹھے بیٹھے بولا تھا فرزانہ ۔۔تمہیں پتہ ہے تم بہت اچھا لکھتی ہو۔۔۔یار ویسے تمہیں کبھی موقع ملا نا تو مجھ پر بھی تحریر لکھنا ۔۔میں نے کہا ہاں ۔۔پی ٹی وی سے نکل کے کوئی بڑا کارنامہ سر انجام دو پھر لکھوں گی تم پر ۔۔۔سیلفی بھی لگائوں گی۔۔ اس پر وہ ہنستے ہوئے بولا تھا اچھا سیلفی تو لے لو کم از کم بندے کے مرنے کے بعد کام آتی ہے میں نے تب برا سا منہ بنا کے اسے دیکھا تھا اور احتجاجا سیلفی لینے سے انکار کر دیا تھا ۔۔۔کچھ دنوں بعد میں لندن آگئی یہاں بھی روزو شب کی مصروفیت میں مدھم سا رابطہ رہا ۔۔پاکستان آئی تو پتہ چلا کہ اسکی بیوی بیمار ہے اس لیے وہ بزی ہے ۔۔اسی دوران میں پھر فارن ٹور پر نکل آئی ۔۔رضوان کو ایک دو بار کال کی تھی لیکن شہر اقتدار کے دھرنے احتجاج میری فارن کنٹری کی ڈاکومنٹشن نے الجھائے رکھا ملاقات نا ہو پائی ۔۔۔اور پھر سنا کہ ۔۔۔وہ مر گیا ۔۔۔۔تم بہت اچھا لکھتی ہو کبھی موقع ملے تو مجھ پر بھی لکھنا ۔۔۔ہائے۔۔لکھ دیا ۔۔کاش سیلفی بھی لے لی ہوتی وہ آخری تصویر کہیں محفوظ رہ جاتی ۔۔۔۔رضوان ۔۔۔بہترین دوست ۔۔۔تحفظ کا احساس دینے والا بھائی ،عزت دینے والا کولیگ تھا ۔۔۔دیار غیر میں اسکی موت نے اس قدر افسردہ کیا ہے کہ کتنی دیر اسکی موت کا یقین کرنا ہی مشکل تھا ۔۔میں بہت روئی ۔۔کتنی دیر روئی ۔۔۔پھر سوچا رضوان کو تو نہیں پتہ کہ فرزانہ کتنا روئی ہے ۔۔۔شاید کسی بھی مرنے والے کو نہیں پتہ ہوتا کس نے کیا سیٹیس لگایا کون کتنا دکھی ہوا کتنوں نے کاندھا دیا کتنوں نے خیرات بانٹی ۔۔اسکو تو روز محشرِ بس یہی یاد ہو گا نا کہ اسکو کس نے کتنی تکلیف دی کتنی اذیت دی ۔۔حساب کتاب تو بس ان اذیتوں کا ہی ہو گا ۔۔مرنے والوں کو نہیں معلوم ۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔زندہ لوگوں کی زندگی تو آسان بنائی جا سکتی ہے نا۔۔ہم مرنے والوں کو ہی کیوں روتے ہیں ۔۔۔زندگی میں اسکے لئے آسانیاں کیوں پیدا نہیں کرتے ۔وہ مر کے بھی مجھے سکھا گیا ہے کہ مرنے والوں کی موت سے پہلے ۔۔۔انکا زندگی میں خیال رکھنا ۔۔اور جو تمہارا زندگی میں خیال نا رکھ پائیں انہیں مردہ سمجھ لینا ۔۔۔پہلو بدل لینا رضوان ۔۔۔بہت کچھ تھا لکھنے کو ۔۔۔کاش تم محسوس کر سکتے میرا ایک ایک لفظ رویا ہے ۔۔۔اللہ پاک تمہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کریں تمہاری آخرت کی تمام منزلیں آسان ہوں ۔۔آمین۔۔۔۔۔اور اب جبکہ پاکستان میں اسکا نماز جنازہ ادا ہو چکا۔۔۔۔ وہ منوں مٹی تلے جا سویا۔۔۔ کاش میں چیخ کر اسکو بتا سکتی رضوان تمہارے لیے میں نے تحریر لکھی ہے ۔۔آہ۔۔۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں