اعتکاف کے لغوی معنی اپنے آپ کو کسی شے پر روکے رکھنے یا پابند کر لینے کے ہیں اور اصلاح شریعت میں کسی مسلمان کا مسجد کے اندر عبادت کی نیت سے اپنے آپ کو پابند کر لینا ” اعتکاف ” کہلاتا ھے ۔ اس کا اصل مقصد گوشہ نشینی اختیار کر کے اپنے نفس کا محاسبہ کرنا ھے اس لیے کہ نفس انسانی اسے ہر وقت برائی پر اکساتا ھے۔ اس لیے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا۔ ” کہ بے شک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے” (سور یوسف)۔ اسلام دین فطرت ھے اسکی عبادات پر نظر دوڑا ئیں تو ہر طرف اجتماعیت کا رنگ غالب نظر آتا ہے ۔ نماز علیحدہ بھی ادا کی جا سکتی ھے مگر اس کے ساتھ جماعت و امامت کا قاعدہ مقرر کر کے اور جمعہ وعیدین کے بڑے اجتماعات کے ذریعے نماز کے سماجی اور روحانی فیوض و برکات کو وسیع حلقوں میں پھیلا دیا ھے۔ روزہ فردا فردا رکھنا بھی اصلاح اور تربیت کا بہت بڑا ذریعہ ھے مگر سب مسلمانوں کے لیے رمضان المبارک کا ایک ہی مہینہ مقرر کر کے اس کے فائدے اتنے بڑھا دیے گئے کہ شمار میں نہیں آ سکتے۔ زکوٰة الگ الگ دینے میں بھی بہت خوبیاں تھیں مگر اس کے لیے بیت المال کا نظام مقرر کر کے اس کی افادیت دوبالا کر دی گئی۔ فریضہ حج ادائیگی کے لیے بھی دنیا بھر سے ان گنت قوموں اور بے شمار ملکوں کے لوگ ہزاروں راستوں سے ایک ہی مرکز کی طرف چلے آتے ہیں شکلیں ،صورتیں ،رنگ اور لباس جدا ھوتے ہیں مگر اس مرکز توحید ورسالت پر سب کا لباس ایک، مقصد ایک، عمل ایک اور زبان بھی ایک ھو جاتی ھے اور ہر طرف سے لبیک اللہم لبیک کی صدائیں آرہی ہوتی ہیں۔ یہی حالت اعتکاف کی ھے تنہا اعتکاف میں بھی بے شمار ثمرات ہیں لیکن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ مل کر مسجد نبوی میں اعتکاف کرتے اور شب قدر کو تلاش کرنے کی تلقین فرماتے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو نہ کسب معاش سے روکا نہ خلوت گزینی سے ،نہ تو ان پر معاشرتی زندگی سے باہر جانے کی پابندی لگائی اور نہ گوشہ نشینی کو زندگی کا جزو قرار دیا بلکہ ایک درمیانہ راستہ بتایا وہ یہ کہ معاشرے کے دوسرے افراد کے ساتھ مل کر رھو اپنے لیے بھی اسباب معیشت تلاش کرو اور دوسروں کے کام بھی آ اور جب ادھر سے تھک جا اور اپنے دل کو دنیاوی محبت سے زنگ آالود ہوتا دیکھو تو خدا کے گھر میں داخل ھو جا ۔ دکان و مکان آل اولاد دولت و سامان دوست و رشتہ دار سب سے منہ موڑ کر صرف خالق کی بارگاہ میں حاضر ھو جا اور کچھ دنوں تک اپنے دل کی میل اور زنگ کو تلاوت قران پاک ،حمد و نعت ،تسبیح و تہلیل درود و سلام اور نوافل کے ریگ مال سے دور کرو ۔ اسی گوشہ نشینی اور حاضری کا نام ” اعتکاف” ھے ۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ھے کہ” جو شخص ایک دن میں بھی اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے اعتکاف کرتا ھے تو اللہ رب العزت اس شخص کے اور دوزخ کے درمیان تین ایسی خند قوں کے برابر دیوار فرما دیتے ہیں جن خندقوں کا فاصلہ زمین و اسمان کے فاصلے سے بھی زیادہ ھے ایک اور حدیث شریف میں ھے۔ ارشاد فرمایا کہ “جو شخص رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرے تو اسے دو حج اور دو عمروں کے برابر ثواب ملے گا” حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ “رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دور میں ایک بار قران پاک کا دور ھوتا تھا جس سال آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وصال ہوا اس سال دو بار قرآن پاک کا دور کیا گیا۔ ہر سال دس دن اعتکاف فرماتے مگر وصال کے سال 20دن اعتکاف فرمایا۔” (بخاری شریف) خوش قسمت ہیں۔ وہ لوگ جنہیں رمضان المبارک کی برکتوں سے مستفید ھونے کا شرف ملتا ہے قابل رشک ہیں وہ آنکھیں جو یاد خدا میں آنسو بہاتی ہیں، قابل تحسین ہیں وہ پیشانیاں جو مالک کے حضور سجدہ ریز رہتی ہیں رمضان المبارک کی آمد پر بہار ساعتوں میں آخری عشرہ میں جب مسلمان گھر بار چھوڑ کر تمام مصروفیات سے منہ موڑ کر دس دن اللہ کے گھر مہمان بن جاتا ھے اور پھر دن اور راتیں اللہ کی یاد میں بسر کرتا ھے۔ یہ عشرہ اعتکاف کی تجلیات کا مشاہدہ کرا دیتا ھے بندہ اپنے گھر سے دور ماں باپ بیوی بچوں کو چھوڑ کر ہر طرف سے منہ موڑ کر اللہ کے گھر حاضر رہتا ہے ایسے عالم میں وہ جب اللہ سے جو طلب کرتا ہے تو اللہ کی رحمت اس کو مایوس نہیں کرتی اس کی مثال ایسے ہی ھے جیسے کوئی فقیر کسی بادشاہ کے دروازے پر آئے اور وہیں سے ہلنے کا نام ہی نہ لے صدا پر صدا لگاتا رھے کبھی نہ کبھی تو بادشاہ کو ترس آ جائے گا اور وہ کچھ نہ کچھ اسے ضرور عطا کر دے گا ہمارا خالق و مالک اللہ تعالی تمام بادشاہوں کا بادشاہ اور ہر سخی سے زیادہ دینے والا ھے اس کی غیرت کب گوارا کرتی ھے کہ یوں ساری دنیا سے الگ ھو کر اس کی چوکھٹ پر بیٹھ جائے اور وہ اس کی طرف نظر رحمت نہ کرے دعا ھے کہ اللہ رب العزت ہمیں رمضان المبارک کی رحمتوں اور خوشیوں کو سمیٹنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
