پاکستان اس وقت بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہو رہے ہیں دہشت گردی کے ڈانڈے بیرون ملک سے بھی ملتے ہیں افغانستان تو گویا پاکستان کے لیے دہشت گردی کا گڑھ اور منبع بن چکا ہے دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کیلئے افغانستان سے تعلقات بہتر بنانا وقت کی ضرورت ہے، دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ سے اتار چڑھائو کا شکار رہے ہیں دونوں ممالک جغرافیائی’ ثقافتی اور مذہبی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں لیکن سکیورٹی’ سرحدی تنازعات اور دہشت گردی جیسے مسائل نے ان کے تعلقات کو کو پیچیدہ بنا دیا ہے گزشتہ دنوں پاکستان کے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی ہدایت پر افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق نے کابل کا دورہ کیا جس میں افغان حکام کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کیلئے تشویش والے مسائل بالخصوص سکیورٹی سے نمٹنے کی اہمیت پر زور دیاگیا ان کی واپسی پر اسحاق ڈار کی زیرصدارت وزارت خارجہ کا اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں صادق خان نے دورہ افغانستان کے بارے میں بریفنگ دی اسحاق ڈار نے اجلاس کے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے تحفظات کو دور کرنے کیلئے افغانستان کے ساتھ بات چیت جبکہ دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کی اہمیت کو اجاگر کیا جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی ملاقات کے بعد سرفراز بگٹی نے کہا کہ صوبے میں دیرپا امن اور ترقی کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا ہو گا دریں اثناء پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بلوچستان اور KP میں امن وامان پر خصوصی توجہ دینے اور قومی معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کو ناگزیر قرار دیا بلاول بھٹو نے گورنر ہائوس پنجاب میں پارٹی راہنمائوں اور کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم اور تمام جماعتوں کو دہشت گردوں سے مقابلے کیلئے متحد ہونا ہو گا انہوں نے کہا کہ نیشنل سکیورٹی کے اجلاس میں کچھ جماعتوں کی عدم شرکت افسوسناک ہے انہوں نے وزیراعظم سے اپیل کی ہے کہ ایک بار پھر قومی سلامتی پر اجلاس بلائیں ہم پہلے اجلاس میں شریک نہ ہونے والے قائدین کو شرکت پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے جس کے بعد وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اﷲ نے کہا کہ حکومت بلاول بھٹو کو ثالثی کی اجازت دیتی ہے جس کا مقصد واضح ہے کہ حکومت سب کو ساتھ لیکر چلنا چاہتی ہے، محمد صادق کا دورہ کابل اور طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سمیت دیگر حکام سے ملاقاتیں اس بات کا اظہار ہے کہ پاکستان سفارتی ذرائع سے مسائل کا حل چاہتا ہے اس کے لیے تمام سیاسی قیادتوں کا ایک ہونا ضروری ہے، پاکستان کیلئے سب سے بڑا چیلنج افغانستان کی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی ہے گزشتہ چند ماہ میں پاکستان میں دہشت گردی کے کئی واقعات ہوئے جن کے تانے بانے افغانستان میں موجود تنظیموں سے ملتے ہیں اگرچہ طالبان حکومت نے بار بار یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا مگر عملی طور پر صورتحال مختلف نظر آتی ہے ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی افغانستان میں موجودگی پاکستان کے لیے ایک مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے اس صورتحال کے پیش نظر پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو مزید مؤثر بنائے اور افغانستان کے ساتھ براہ راست تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کرے اس حوالے سے نمائندہ خصوصی کا دورہ افغانستان اہم پیشرفت ہے اگر پاکستان افغانستان سے اپنے تعلقات بہتر بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے مثبت اثرات پورے خطے پر پڑیں گے دہشت گردی کے خاتمے کے علاوہ اقتصادی تعاون راہداری منصوبے تجارتی معاہدے اور عوامی روابط دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں پاکستان نے ہمیشہ ایک مستحکم افغانستان کی حمایت کی ہے اور اب طالبان حکومت پر منحصر ہے کہ وہ پاکستان کے تحفظات کو دور کرے، پاکستان کو سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں دراڑیں نہ آنے دے اور افغان عبوری حکومت کے ساتھ رابطے رکھتے ہوئے مثبت بات چیت جاری رکھے۔
