18

انا شانئک ھوالابتر ……

وہ جو مٹ گیا وہ یزید تھا جو نہ مٹ سکا وہ حسین ہے اور اس کا اعلان قرآن مجید میں کچھ یوں کردیا گیا تھا انا شانئک ھوالابتر(بے شک آپ کا دشمن برباد ہو گا۔ یہ مباہلہ کے مطابق نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دین کی سربلندی کے لئے اپنی بیٹی داماد اور دونوں نواسے نجران کے عیسائیوں کے سامنے لا کھڑے کردیئے تھے۔ یہی اللہ کے رسول کاعزم تھا جس کی سنت میں سیدنا امام حسین نے اپنے بیٹے تو کیا بھتیجے بھانجے اور دیگر عزیزواقارب اللہ کی راہ میں پیش کردیئے تھے۔ راہ حق میں جان دینے والوں کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں اور تمہیں شعور نہیں ہے۔ معاملہ سارا شعور کا ہے۔ کم فہم لوگ آج پر نظر رکھتے ہیں اور ذی شعور کی نظر آنے والے کل پر ہوتی ہے اور آنے والے کل کو یہ فیصلہ ہونا ہے کہ حق کس نے ادا کیا ہے اور حق ادا کرنے کے لئے کس حد تک جانا پڑتا ہے بلکہ خدا کی رضا پر راضی رہنے والے تو ساری حدیں عبور کر جاتے ہیں۔ ایسا حق ادا کرنے کے لئے مدینہ میں گھربار چھوڑنا پڑتا ہے۔ حج کو عمرہ میں تبدیل کرکے کربلا کی طرف روانہ ہونا پڑتا ہے۔ حق کی طرف دعوت دینے کے لئے باطل قوتوں کے سامنے چٹان کی طرح کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ جبرواستبداد کے سامنے سینہ سپر ہونا پڑتا ہے۔ پانی کی بندش پر معصوم بچوں کی پیاس کی شدت پر صبر کرنا پڑتا ہے۔ جوان بیٹوں کو ایک ایک کرکے معرکہ حق وباطل میں بھیج کر سرخرو ہونا پڑتا ہے۔ اصولی موقف پر ڈٹ کر فلسفہ قربانی کی عملی تفسیر پیش کرنا پڑتی ہے۔ عبدہ کا مفہوم بتانے کے لئے بہتر سر دے کر عبدیت کے تقاضے پورے کرنا پڑتے ہیں۔ عرش اور فرش کو اپنی بینظیر شہادت پر آفرین ومرحبا کہنے پر مجبورکرنا پڑتا ہے۔ نانا کا دین بچانے کے لئے گھر کی مستورات کو کرب وبلا کے لق و دق صحرا میں اپنے رب کے حوالے کرنا پڑتا ہے تب جا کر قرآن بولتا ہے ان کو مردہ مت کہو یہ تو زندہ ہیں۔ بلاشک وشبہ حسین زندہ ہے اور بقول شاعر(اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد)امام حسین حضرت علی اور سیدہ فاطمہ الزہرہ کے فرزند ارجمند اور نواسہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم تھے۔ جب یزید کی بیعت کا مسئلہ پیدا ہوا تو اس کے خلاف مجموعی طور پر ردعمل منظر عام پر آیا۔ لیکن بہت جلد ہی اس پر کنٹرول کرلیا گیا۔ چند صحابہ جن میں حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر اور سیدنا امام حسین نمایاں تھے ان لوگوں نے اس بنیاد پر یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کردیا کہ یزید ایک فاسق وفاجر شخص ہے اور اس میں جملہ شرعی عیوب ہیں لہذا ایسے بدکردار شخص کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی جا سکتی ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں خلافت کا مکمل تصور موجود ہے۔ خلفائے راشدین کے دور تک جملہ خلفا کے شخصی کردار پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی تھی بلکہ حضرت سیدنا امام حسن اور حضرت امیر معاویہ تک اس قسم کا مسئلہ درپیش نہیں آیا تھا۔ یہ اسلامی تاریخ میں ایک بہت بڑی تبدیلی تھی کہ کیا ایک فاسق وفاجرشخص خلافت کا امیدوار بن سکتا ہے اور اس کے ہاتھ پر بیعت کی جا سکتی ہے یا کہ نہیں۔ حضرت امام حسین وہ ہستی تھے جن کی تعلیم وتربیت خود نبی برحق صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاتھوں میں ہوئی تھی اور وہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے بیٹے تھے جن کی فقہی استعداد کا معیار زبان زد خاص وعام تھا۔ ان حالات میں امام مذکور کا کردار انتہائی اہم تھا اور اس بات کا ان کو بھی شعوری احساس تھا۔ لہذا جب آپ سے بیعت کا مطالبہ کیا گیا تو آپ نے اپنا دو ٹوک موقف سب کے سامنے رکھ دیا اور پھر اس موقف پر ڈٹ گئے۔ مدینہ چھوڑا اور مکہ میں پناہ لی حج کو عمرہ میں تبدیل کرکے کوفہ کی طرف کوچ کیا اور راستے میں اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر سن کر مغموم ضرور ہوئے لیکن سفر جاری رکھا۔ باطل کے خلاف یہ سفر کربلا میں جا کر تکمیل کو پہنچتا ہے۔ یزیدی فوجوں نے آپ کو گھیرے میں لے لیا اور یکم محرم سے دس محرم 60 ہجری تک آپ کو اس بات پر مسلسل مجبور کیا گیا کہ وہ یزید کی بیعت کریں آپ کا مسلسل انکار اور یوں دسویں محرم کی شام۔ شام غریباں۔ بظاہر باطل کی سرخروئی کی شام۔ خاندان رسول کی ہزیمت کی شام۔ حق کی بے بسی کی شام۔ زینب وسکینہ کی آہ وبقا کی شام۔ زین العابدین کو بیڑیاں پہنائے جانے کی شام۔ خاندان رسول کے پھول سے بچوں کو طمانچے لگائے جانے کی شام۔ شیطان اور شیطانی قوتوں کی بغلیں بجائے جانے کی شام۔ یزیدی حلقوں میں خوشیاں منائے جانے کی شام۔ قیدیوں کو شام لے جانے کی شام۔ لاشوں پر گھوڑوں کے دوڑائے جانے کی شام۔سیدنا محمد الرسول کی روح کو تکلیف پہنچائے جانے کی شام۔ مایوسی ناامیدی اور بے بسی کی شام۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بظاہر پوری کائنات خاموش رہی۔ کیوں۔ وہ شاید اس لئے کہ ہر شام نے رات میں تبدیل ہونا ہوتا ہے اور پھر صبح طلوع ہوتی ہے اور اس کے بعد سب کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور پھر آہ و بکا شروع ہوجاتی ہے۔ پرسے دیئے جاتے ہیں۔گھرگھر بین شروع ہوجاتے ہیں اور گلی گلی میں ماتم شروع ہو جاتے ہیں۔ احتجاج احتجاج اور وہ بھی یزیدی رویوں،سوچوں اور ہتھکنڈوں کے خلاف احتجاج۔ احتجاج نے ایک دن تخت گرانے ہوتے ہیں اور پھر یزید کا بیٹا خود ہی غائب ہو جاتا ہے اور امام زین العابدین کی کہانی آگے چلتی ہے اور شرف سیادت کی بدولت خاندان رسول معتبر اور مکرم قرار دیا جاتا ہے سید الشباب اہل جنت کی حکمت منظر عام پر آتی ہے اور یزید لعین بدبخت غاصب اور مردود ٹھہرتا ہے۔ یوں انا شانئک ہوالابتر کی کہانی اپنے کلائمکس کو پہنچ جاتی ہے۔معرکہ کربلا باطل کے خلاف شعور بیدار کرنے کی ایک منفرد اور بے نظیر داستان ہے۔ یقیینا شعور بیدار کرنے کے لئے خون دینا پڑتا ہے اور خون دے کر آنے والی نسلوں کو سبق دینا پڑتا ہے۔ نیلسن منڈیلا کہتا ہے کہ جب وہ محصور تھا تو اس کا بیٹا فوت ہوگیا اور حاکم وقت نے آخری رسومات میں شرکت کے لئے معافی مانگ کر اور آئندہ سر جھکا کر رہنے کی شرط ٹھہرائی۔ نیلسن منڈیلا کہتا ہے کہ میں تذبذب کا شکار ہو گیا عین اس وقت مجھے کربلا کا حسین یاد آگیا جس نے ایک تو کیا سارے بچے راہ حق میں قربان کردیئے تھے یہ یاد کر کے میری آنکھیں کھل گئیں اور میں نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا کہ وقت کے جابر حکمران سے کسی قسم کی بھیک نہیں مانگی جاسکتی ہے۔ کاش آج ہم سب کی نظریں کربلا کے مظلوم کے کردار پر لگ جائیں تو آنکھیں کھل جائیں گی اور معبود برحق کی تعلیمات کو دنیا میں لاگو کرنے کے لئے ہم سب رسم شبیری ادا کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ رسم شبیری ادا کرنا ہی آج کا پیغام ہے۔ یوں حسینیت زندہ باد اور یزیدیت مردہ باد ہو جائیگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں