7

ایک اور صدمہ…!

مٹی نہ پھرول فریدا…
یار گواچے نہیں لبھدے…
یہ شعر عین حقیقت ہے ہاں مگر جس پر یا جن پر گزرتی ہے وہ اسکی حقیقت سے اصل آشنا ہوتے ہیں، واقعی دنیا میں والدین کے بعد مخلص رشتوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے ان میں سے جو رشتے داغ مفارقت دے جاتے ہیں، وہ انسان کی کمر توڑ دیتے ہیں، رضوان ہندل کیساتھ بھی کچھ اس قسم کا ہی رشتہ تھا کہ اسے مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے اور دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہو جاتا ہے، سوموار 7اکتوبر کو دفتر سے معمول کے مطابق گھر جانے کیلئے گاڑی میں بیٹھا ہی تھا کہ ظفران سرور کا ٹیلی فون آ گیا، جس نے درد بھری آواز میں بتایا کہ سر جی رضوان ہندل کا اسلام آباد میں انتقال ہو گیا، اس کے ساتھ ٹیلی فون بند ہو گیا اور میری آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہو گئے، گاڑی ایک سائیڈ پر کھڑی کی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، رضوان ہندل کے ساتھ میرا تعلق ایک استاد’ شاگرد کے ساتھ ساتھ باپ بیٹے والا بھی تھا، 2013ء میں اس نے ادارہ ”ڈیلی بزنس رپورٹ” جوائن کیا تو مجھے خوشی حاصل ہوئی کیونکہ میرا اس کے ساتھ پیار’ محبت’ الفت اور چاہت والا تعلق تھا، مجھے علم تھا کہ اسے صحافت سے گہرا لگائو ہے اور مجھے اس کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں مدد ملے گی اور پھر ایسا ہی ہوا، ”ڈیلی بزنس رپورٹ” میں سٹاف رپورٹر کی حیثیت سے رضوان ہندل نے محنت’ لگن اور ایمانداری کو اپنا شعار بنائے رکھا اور میں نے اس کی بھرپور رہنمائی جاری رکھی، اﷲ تعالیٰ نے اسے بڑی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے رضوان ہندل نے ہر خاص وعام سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گرمیوں کے موسم میں شام کے وقت ہم ڈسٹرکٹ پولیس لائن میں واقع سوئمنگ پول جایا کرتے تھے، صغیر سانول کو بھی رضوان ہندل نے ہی میرے ساتھ متعارف کروایا اور وہی اسے روزنامہ جنگ سے ہمارے ادارہ لایا، بعدازاں ظفران سرور بھی ان کے ساتھ ہماری ٹیم کا حصہ بن گئے، ان تینوں نے ایک اچھا خاصا عرصہ ”ڈیلی بزنس رپورٹ” میں بطور رپورٹر کام کیا، انہیں بطور ایڈیٹر میری سخت گیری کا سامنا کرنا پڑتا مگر مجال ہے جو انہوں نے کبھی اُف تک بھی کی ہو، انہوںنے ہمیشہ میرا اپنے باپ کی طرح احترام کیا اور استاد شاگردوں میں خلوص ومحبت کا یہ لازوال رشتہ آج بھی قائم ودائم ہے،میرے بڑے بھائی حاجی ملک مشتاق احمد عارضہ جگر میں مبتلا رہے جس کے دوران انہیں مختلف ہسپتالوں میں علاج ومعالجہ کروانا پڑا، اس دوران رضوان ہندل اور صغیر سانول نے حاجی صاحب کی دیکھ بھال میں بہت ڈیوٹی دی، عزیز فاطمہ ہسپتال میں میرے بھائی کی طبیعت انتہائی ناساز رہی، رضوان ہندل ان کے پاس رہتا تھا جس نے حاجی صاحب کی تیمارداری اور خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی، اس نے میرے بھائی کے بیٹوں اور میرے بھتیجوں سے بڑھ کر حاجی ملک مشتاق احمد کا خیال رکھا، ایک روز حاجی صاحب کے کپڑے خراب ہو گئے تو رضوان ہندل فوری طور پر اپنے گھر گیا اور واپس آ کر خود اپنے ہاتھوں سے ان کے کپڑے تبدیل کروائے، ایسے واقعات طویل ہیں اور یہاں یہ واقعہ قلمبند کرنے کا مقصد رضوان ہندل کی اعلیٰ ظرفی اور وفا شعاری کا تذکرہ کرنا ہے، ادارہ ”ڈیلی بزنس رپورٹ” چھوڑنے کے باوجود وہ میرے زیرسایہ رہا اور اس کے ساتھ تعلق مرتے تک برقرار رہا، میں نے اس کو جب کسی بھی معاملے میں کوئی کام کہا تو وہ فوری بول اٹھتا تھا کہ ”سرجی” آپ بے فکر ہو جائیں، رواں سال اگست کو میرا بیٹا حافظ محمد شاویز میرے دوست ملک محمد سرور کے ہمراہ گلگت بلتستان کی سیروتفریح کیلئے گیا تو میں نے 20اگست کو رضوان ہندل کی ڈیوٹی لگائی کہ انہیں اسلام آباد میں فلائنگ کوچ اڈہ سے پک کرنا اور پھر گلگت بلتستان والی گاڑی میں سوار کروانا ہے۔ رضوان ہندل نے اس بات کو حکم سے کہیں زیادہ اہمیت دی، وہ گاڑی پہنچنے سے قبل ہی فلائنگ کوچ اڈہ پر موجود تھا اور ان دونوں کو ہوٹل میں کھانا کھلایا، بھرپور کمپنی دی اور بعدازاں گلگت بلتستان جانیوالی بس میں سوار کروا دیا، میں نے اسے 2اکتوبر کو ہونے والی 26ویں سالانہ محفل پاک میں شرکت کا دعوت نامہ بھجوایا تو اس نے کہا کہ انشاء اﷲ ضرور حاضری ہو گی مگر وہ نہ آ سکا، رضوان ہندل نے اسلام آباد میں 6اکتوبر کی شب اپنے آفس PTV اسلام آباد میں اپنے سینئرز کی ٹیم کیساتھ کھانا کھایا اور اپنے گھر آ گیا، 7اکتوبر کی صبح اس نے اپنی بیوی سے پیٹ خراب ہونے کی شکایت کی جسے دونوں میاں بیوی نے اتنا سیریس نہ لیا مگر رضوان ہندل کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی، اس کی بیوی نے ظفران سرور کو فون کر کے صورتحال سے آگاہ کیا جس نے اسلام آباد میں موجود شہزاد الٰہی کو بھجوایا، اس سے قبل ہی رضوان ہندل کی بیوی اپنے مالک مکان کے ساتھ پمز ہسپتال پہنچ چکی تھی، شہزاد الٰہی بھی وہاں پہنچ گیا مگر ان کے وہاں پہنچنے سے قبل ہی رضوان ہندل اپنے خالق حقیقی سے جا ملا تھا، رضوان ہندل کچھ عرصہ سے اپنی بیوی اور کمسن بچے کے ساتھ اسلام آباد میں رہائش پذیر تھا اور وہاں PTV میں بطور رپورٹر فرائض سرانجام دے رہا تھا’ اسکی اچانک موت اس کے چاہنے والوں پر بجلی بن کر گری، بے شک! موت ایک اٹل حقیقت ہے اور ہر ذی روح نے اس کا ذائقہ چکھنا ہے، اﷲ تعالیٰ کے ہر فیصلے میں مصلحت ہوتی ہے، ہم اﷲ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں اور اپنے رب کریم کا فیصلہ تسلیم کرتے ہیں، میرے بیٹے جیسے عزیز رضوان ہندل کی موت میرے لئے کسی صدمے سے کم نہیں ہے، یہ ایک اور ایسا صدمہ ہے جس نے مجھے شدید غم سے دوچار کر دیا ہے، قبل ازیں چوہدری امجد علی وڑائچ اور ملک احسان اﷲ اعوان کی موت نے مجھے توڑ کر رکھا ہوا ہے جن کی جدائی کا غم بھلائے سے نہیں بھول رہا اور رضوان ہندل کی موت کا صدمہ بھی میں بھول نہیں سکوں گا، دعا ہے کہ رب کریم ہم سب کے پیارے رضوان ہندل کی آخرت کی منزلیں آسان فرمائے، اس کی بیوہ اور کمسن بیٹے کی اپنے غائب کے خزانوں سے مدد فرمائے اور انہیں کبھی بھی کسی بھی معاملے میں کسی کا بھی محتاج نہ ہونے دے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں