149

باحیا و باوقار خاتون کا انتقال

موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے ہر ذی روح کو ایک نہ ایک دن واسطہ پڑھنا ہے انسان سو سال بھی جی لے یا اس سے زیادہ ایک دن موت نے اسے آدبوچنا ہے موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا آئے روز ہمارے آس پاس دوست ہمسائے رشتہ دار موت کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں اور ہم خود انہیں اپنے ہاتھوں سے منوں مٹی تلے دفنا آتے ہیں اور پھر دنیا میں مشغول مصروف و مشغول ہو جاتے ہیں دکھ ہوتا ہے چند دن چند ماہ اور سال بھر کے بعد بھول جاتے ہیں یہی دنیا کا دستور رہا ہے بس جس نے چلے جانا ہے وہی واپس نہیں لوٹنا دنیا کا نظام پہلے سے بھی بہتر چل جاتا ہے دنیا کی رونقیں اور تمام معمولات ویسے ہی چلتے رہتے ہیں ہماری بطور انسان بس یہی غفلت ہے کہ ہم موت کی حقیقت کو کبھی بھول جاتے ہیں بہترین انسان وہ ہے جس نے دنیا میں رہ کر آخرت کی فکرمندی کے ساتھ زندگی گزاری اللہ کی فرمانبرداری میں وقت گزارا اور جو کچھ کیا اللہ کی رضا کی خاطر اور وہ اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہو گیا۔نیک سیرت پابند صوم و صلات باوقار اور مہمان نواز سکینہ بی بی شوگر بلڈ پریشر کے عارضہ میں رہنے کے بعد چند دن قبل گھر پر ہی ہارٹ اٹیک ہونے کی بنا پر انتقال کر گئی انا للہ وانا الیہ راجعون سکینہ بی بی میری تایا ذاد بہن تھی اور میرے کزن مرحوم ماسٹر محمد یار کی اہلیہ محترمہ تھی ماسٹر محمد یار سے میرا پیار اور محبت کا رشتہ تھا جو مجھے اپنے والد گرامی مولانا محمد انور کی طرف سے ملا تھا والد محترم کا بھی اس فیملی سے قریبی اور محبت کا رشتہ تھا والد کے انتقال کے بعد میں نے اس فیملی سے رابطہ اور تعلق جوڑے رکھا غمی اور خوشی کے مواقع پر میں ان کے گائوں محمد والا ضرور جاتا اور ان کے گھر ٹھہرتا خوب مہمان نوازی کرتے باتیں کرتے اور خوب وقت گزرتا ان کی مہمان نوازی محبت اور پیار اتنا ملتا کہ واپس جانے کو دل نہ کرتا بلکہ بار بار ان کے ہاں گائوں آنے کو جی چاہتا تھا اور میں ہمیشہ ایسا ہی کرتا تھا۔ماسٹر محمد یار مرحوم نیک سیرت انسان اور انتہائی ملنسار شخصیت کے مالک تھے سکول ٹیچر تھے جماعت اسلامی سے وابستگی تھی ان کے بیٹے بھی آج شریف النفس اور اپنے والد کی عزت کو قائم رکھے ہوئے ہیں ماسٹر محمد یار مرحوم کی وفات کے بعد کم و بیش 10، 15سال ان کی اہلیہ سکینہ بی بی زندہ رہی اور خوب بچوں کی تربیت اور تعلیم کی طرف توجہ دی رشتہ داروں کے ساتھ خوب وقت گزارا ان کی غمی اور خوشی میں شریک ہوتی رہی وفات سے چند دن قبل میری چچی کا انتقال ہوا تو تین دن وہاں رہی واپس آئی تو نے ہارٹ اٹیک ہوا جو جان لیوا ثابت ہو گیا شوگر اور بلڈ پریشر کا عارضہ انہیں کئی سالوں سے تھا علاج چل رہا تھا ان کے بیٹوں اور بیٹیوں نے اپنی والدہ کی خوب خدمت کی میرے بھانجے امتیاز اور سرفراز نے علاج اور خدمت میں کوئی کمی نہ چھوڑی ہر وقت میں نے ان کو والدہ کے علاج کے بارے فکر مند پا یا اللہ ان بچوں کو جزائے خیر دے اور بہترین صبر جمیل عطا فرمائے، والد کے بعد والدہ کا بچوں کو چھوڑ جانا کوئی کم صدمے سے کم نہیں ہر انسان نے جانا ہے صبر کرنے کے علاوہ انسان کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ میری باجی سکینہ بی بی کی وفات میرے لیے میرے خاندان کے لیے بہت بڑا صدمہ اور دکھ کی بات ہے کیونکہ اس فیملی کے ساتھ میرا دلی لگا تھا باجی بھی میرا بہت خیال رکھتی تھی چھوٹے بھائیوں جیسا برتائو کرتی ہر ملنے والے کے ساتھ خندہ پیشانی ہنس کر بات کرتی خوش تباہ تھی ان کی نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور ہر آنکھ مجھے اشک بار نظر آئی وفات پا جانے والے کی کمی پوری نہیں ہو سکتی انسان کے پاس صبر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے دعا ہے اللہ تعالی مرحومہ کی کامل مغفرت فرمائے ان کے درجات بلند فرمائے ان کی قبر کو جنت کا باغ بنائے ان کی لغزشوں سے درگزر کرتے ہوئے معاف فرمائے انکے بچو ں بچیوں کو صبر جمیل عطا فرمائے انکے لیے آسانیاں پیدا فرمائے اور ہمیں بھی صبر دے، آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں