36

بجلی کے بعد گیس بھی مہنگی… (اداریہ)

وفاقی حکومت نے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کے بعد گیس بھی 124 فی صد تک مہنگی کرنے کی منظوری دیدی گھریلو صنعتی اور پاور سیکٹر کیلئے جنوری 2023ء سے 30جون تک اضافہ ہو گا 50کیوبک میٹر کے گھریلو صارفین مستثنیٰ ہوں گے حکومت کو 310 ارب روپے کا ریونیو حاصل ہو گا سب سے زیادہ سلیب استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کیلئے نرخوں میں اوسطاً 112 فی صد اضافہ کیا گیا ہے 100 کیوبک میٹر گیس استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کے لیے قیمت میں 16.6 فی صد اضافہ کیا گیا ہے اور 100 کیوبک میٹرگیس کی قیمت 300 روپے سے بڑھا کر 350 روپے ایم ایم بی ٹی یو کر دی گئی ہے 200کیوبک میٹر گیس استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کے لیے قیمت میں 32 فی صد اضافہ کیا گیا ہے 400 کیوبک میٹر گیس صارفین کیلئے قیمت 1460 روپے سے بڑھا کر 3277 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کر دی گئی ہے،، آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کیلئے حکومت عوام کی مشکلات میں دن بدن اضافہ کر رہی ہے عوام اس تماشہ سے اکتائے دکھائی دے رہے ہیں عوام کی بے بسی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ نت نئے ٹیکسوں’ مہنگائی اور بے روزگاری نے رات کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں بے یقینی کے باعث بیرونی سرمایہ کاری کا سلسلہ بھی تھم گیا ہے ملک میں زرمبادلہ کی کمی ہے روپے کی قدر میں مسلسل کمی سے معاشی صورتحال ابتر ہوتی جا رہی ہے جس کو سنبھالنے کیلئے کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی ملک کے دیوالیہ ہونے کی بحث چل رہی ہے سابقہ حکمرانوں کے مطابق یہ صورتحال موجودہ حکمرانوں کی پیداکردہ ہے جبکہ موجودہ حکمران اس کا ذمہ دار سابق حکمرانوں کو ٹھہرا رہے ہیں حالانکہ موجودہ حالات کا ذمہ دار کوئی ایک نہیں ہم سب ہیں! جو کچھ ہوا ہے یا ہو رہا ہے جو کچھ ہونے والا ہے یہ سب کچھ ان چند سو لوگوں کا کیا دھرا ہے کسی کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا سب نے مل جل کر ملک کو اس حال تک پہنچایا ہے ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام نے ہر باشعور کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے! حالات سنبھل نہیں رہے آئی ایم ایف حکومت کو اپنی شرائط پیش کر رہا ہے اور ان شرائط پر عمل نہ کرنے پر قرضہ کی قسط نہ دینے کا عندیہ دے رہا ہے حکمران آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے قرضہ کی قسط لینے کیلئے عوام پر کبھی بجلی بم اور کبھی گیس بم گرا رہے ہیں حکمرانوں کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ مہنگائی’ بیروزگاری کی ماری عوام پر کیا گزر رہی ہے اس وقت ہماری حالت یہ ہو چکی ہے کہ آئی ایم ایف کچھ بھی کہے وہ کوئی بھی تقاضا کرے کوئی مطالبہ کرے ہم بلاچوں وچرامان جائیں گے اور آئی ایم ایف سے قرضہ کے حصول کی خاطر اس کی ہر شرط پوری کریں گے کیونکہ پاکستان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں دوست ممالک کب تک ہماری مدد کرتے رہیں گے؟ پاکستان کی معیشت اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ ہم ہر وقت کبھی سعودی عرب’ کبھی متحدہ عرب امارات’ کبھی چین کی امداد کے منتظر ہوتے ہیں عالمی مالیاتی فنڈ جب قرضہ دے گا تو وہ شرائط بھی رکھے گا اور ہمیں ان کے مطالبات ماننا پڑیں گے 2023ء میں دنیا ترقی کر کے کہاں پہنچ گئی ہم مالی اور معاشی حوالے سے پیچھے جا رہے ہیں گزشتہ چار برسوں میں مہنگائی’ بیروزگاری’ بدامنی’ معاشی بحران’ زرعی شعبے کی تنزلی’ انڈسٹری کی بندش’ خام مال کی قلت’ ڈالرز کی اونچی اڑان’ غربت میں اضافہ’ بجلی گیس کے نرخوں میں اضافہ’ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ سمیت مختلف قسم کے دیگر بحرانوں نے ملک کو ایسے بھنور میں پھنسا دیا ہے جہاں سے باہر نکلنے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کب تک بیرونی قرضوں پر چل سکتے ہیں ہم نے معاشی ومالی خود مختاری کی طرف بڑھنا ہے اگر ملک دیوالیہ ہو جاتا ہے تو پھر کیا ہو گا یہ سوال واقعی بڑا چھبتا ہوا سوال ہے اس کا جواب قوم کے ہر فرد کو ڈھونڈنا ہو گا بدقسمتی سے ملک کا ہر فرد سب سے پہلے اپنا مفاد دیکھتا ہے حالانکہ اگر وہ سب سے پہلے ملک کا سوچے اور بعد میں اپنا سوچے تو ہم بے یقینی کی کیفیت سے باہر نکل سکتے ہیں بڑے لوگ قربانی نہیں دینا چاہتے عوام کے ووٹ سے حکومت میں آنے والے ٹیکس کے پیسے پر عیش کرتے ہیں معاشی طور پر کمزور ملک میں ہر وزیر مشیر کیسے مراعات حاصل کر سکتا ہے خدارا ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ ملک ہے تو ہم ہیں اگر ہم نے اب بھی اس کی جڑیں کاٹنا نہ چھوڑیں تو پھر اسی طرح ہم غیروں سے قرضے لینے کیلئے ان کی سخت سے سخت شرائط ماننے پر مجبور ہوں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں