63

برداشت اور ہم آہنگی پیدا کرنا ضروری ہے (اداریہ)

ملک میں عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کے لیے پیشرفت جاری ہے اور مسلم لیگ (ن) کے ملک احمد خان 224 ووٹ لیکر سپیکر پنجاب اسمبلی منتخب ہو گئے ہیں، سپیکر کے انتخاب کے لیے خفیہ رائے شماری کے تحت ووٹنگ کی گئی، سپیکر پنجاب اسمبلی کے انتخاب کیلئے 322 ارکان اسمبلی نے انتخاب میں حصہ لیا، سنی اتحاد کونسل کے احمد بھچڑ کو 96ووٹ ملے، دو مسترد ہوئے، پنجاب اسمبلی کے ایوانوں میں 327 اراکین موجود تھے، 27خواتین اور مخصوص نشستوں کا معاملہ زیرالتواء ہے، باقی 16ارکان نے حلف نہیں لیا، ان میں سے کچھ اراکین نے صوبائی نشستیں چھوڑنے کا اعلان کیا ہے، پنجاب اسمبلی میں اجلاس کے آغاز پر سپیکر نے مزید 6نومنتخب ارکان سے حلف لیا، سپیکر سبطین خان نے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے اوپر لیبل نہیں لگوانا چاہتا کہ سپیکر اجلاس ملتوی کرتے گئے، ہیں باعزت طریقے سے کرسی چھوڑ رہا ہوں اور اب آپ نے پانچ سال اکٹھے چلنا ہے، الیکشن 2024ء کے بعد بننے والی سندھ اسمبلی کے نومنتخب اراکین نے بھی حلف اٹھا لیا ہے، سپیکر آغا سراج درانی نے اراکین اسمبلی سے حلف لیا’ اجلاس میں پیپلزپارٹی کے 111 جبکہ ایم کیو ایم کے 36ارکان نے حلف اٹھایا’ سنی اتحاد کونسل کے 9′ جی ڈی اے کے تین اور جماعت اسلامی کے ایک رکن نے حلف نہیں اٹھایا’ سندھ اسمبلی میں حلف برداری کے بعد دوران اپوزیشن رہنمائوں نے احتجاج کیا اور نعرے بازی شروع کر دی، ایوان میں اکثریت رکھنے والی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے سید اویس شاہ کو سپیکر سندھ اسمبلی اور نوید انتھونی کو ڈپٹی سپیکر نامزد کیا گیا ہے، وزیراعلیٰ سندھ کا انتخاب اگلا مرحلہ ہو گا جس کے لیے پیپلزپارٹی کی جانب سے سید مراد علی شاہ کو نامزد کیا گیا ہے، گزشتہ روز پنجاب اسمبلی اپنا سپیکر منتخب کر چکی ہے، سندھ اسمبلی میں یہ مرحلہ آج طے ہو رہا ہے جبکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بدھ 28فروری کو طلب کیا گیا ہے، قومی اسمبلی کا اجلاس بھی طلب کرنے کیلئے سمری صدر مملکت کو بھیجی گئی ہے، اس طرح وفاقی اور صوبائی حکومتیں قائم ہو جائیں گی، نئی حکومت کو ملک میں سیاسی ومعاشی استحکام پر توجہ دینا ہو گی، اس وقت معاشی صورتحال بہتر نہیں ہے جس سے نمٹنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو ہم آہنگی اور ذمہ دارانہ رویے کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے، نئی حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلے، حزب اختلاف کی جماعتوں کا بھی فرض ہے کہ قومی سیاست میں برداشت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کریں کیونکہ ان حالات میں کوئی ایک جماعت ملک وقوم کو درپیش بحرانوں سے نجات نہیں دلا سکتی، قوم یہی چاہتی ہے کہ سیاسی قائدین مل جل کر کام کریں اور امید ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس سلسلے میں ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرینگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں