غزہ میں فلسطینیوں پر ظلم وستم کے جو پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، اس سے درد دل رکھنے والا ہر شخص لرز کر رہ جاتا ہے، جنگ بندی کے باوجود اسرائیل کھلی دہشت گردی کر رہا ہے، اس کا کھلم کھلا جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا لمحہ فکریہ ہے،یہ بڑی تلخ حقیقت ہے کہ امت مسلمہ اور عالمی برادری نے اسرائیل کو روکنے کیلئے وہ عملی اقدامات نہیں اٹھائے جو وقت کا تقاضا ہے اور سرزمین لائلپور کے باسیوں نے بھی ابھی تک وہ کردار ادا نہیں کیا جو اشد ضروری ہے’ اسرائیل کو ظلم وجبر سے روکنے کیلئے ہر وہ اقدام اٹھانا چاہیے جس سے اسے راہ راست پر لایا جاسکے، اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا بھی اشد ضروری ہے، مسلم ممالک کی طرف سے غزہ کے مسلمانوں پر حملوں کیخلاف صرف مذمتی بیانات دیئے جا رہے ہیں لیکن کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا، عالمی برادری بھی غزہ میں اسرائیلی مظالم روکنے میں ناکام رہی ہے، غزہ میں نہتے مظلوموں پر اسرائیل کی مسلسل دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں بچوں اور عورتوں کی اموات بھی اقوام عالم کو خواب غفلت سے بیدار نہیں کر سکی، ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی ممالک کے سربراہان اسرائیلی بربریت سے دنیا کو آگاہ کریں اور اسرائیل کو متفقہ طور پر امن کے لیے خطرہ اور انسانیت کے قتل عام کا ذمہ دار قرار دیا جائے، اسرائیل کو امریکی پشت پناہی حاصل ہونا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، پاکستان نے یو این میں اسرائیل مخالف تجاویز پیش کی تو امریکہ نے اس کی بھرپور مخالفت کر دی، پاکستان کی یو این میں اسرائیل مخالف تجویز کو امریکا نے کمزور کیا، امریکی کانگریس کے دو سربراہوں کی جانب سے ایچ آر سی کے رکن ممالک کو حمایت پر سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی گئی، سفارتکاروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے علیحدگی کا اعلان تو دو ماہ قبل کر دیا تھا لیکن امریکا اب بھی کونسل کے کام پر اثر انداز ہو رہا ہے، جس کا شکار پاکستان کی حالیہ اسرائیل مخالف تجویز بھی ہوئی اور امریکا نے پاکستان کی جانب سے پیش کردہ ایک سخت تجویز کو کمزور کرنے پر توجہ مرکوز کر دی، جس میں اسرائیل کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کارروائیوں کی تحقیقات کے لئے اقوامِ متحدہ کا ایک خودمختار، غیرجانبدار اور آزاد میکانزم بنانے کا کہا گیا تھا۔ فلسطینی علاقوں کے حوالے سے کونسل نے ایک انکوائری کمیشن پہلے سے قائم کر رکھا ہے لیکن پاکستان کی تجویز کے تحت اضافی اختیارات کے ساتھ بین الاقوامی عدالتوں میں ممکنہ استعمال کے لیے شواہد اکٹھے کرنے کے ساتھ اضافی تحقیقات کا آغاز ہو سکتا تھا۔ امریکی کانگریس کے دو ارکان کی جانب سے 31 مارچ کو بھیجے گئے ایک خط میں ایچ آر سی کے رکن ممالک کو خبردار کیا گیا کہ اگر انہوں نے اسرائیل کے خلاف مخصوص میکانزم کی حمایت کی تو انہیں بھی وہی نتائج بھگتنا ہوں گے جو آئی سی سی کو اسرائیلی وزیرِ اعظم کے وارنٹ پر بھگتنا پڑے۔غزہ میں بربریت کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے، اسرائیل کی سفاکیت پوری دنیا پر واضح ہے۔ بھوک وافلاس، موت کا خوف، بے گھری، اہلخانہ کی لاشوں کو دیکھ کر فلسطینی شدید تنائو کا شکار ہوگئے ہیں۔ غزہ میں امداد کی فراہمی کا عمل غیر یقینی حالات سے دوچار ہے۔ اس کے نتیجے میں غذائی قلت کا شکار بچوں کے لیے کوئی مدد میسر نہیں رہی۔ علاقے میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں حملے کا خطرہ نہ ہو۔ اسرائیل ظلم کی ہر حد پارکرچکا ہے، غرض کے فلسطین میں ہر سمت اسرائیلی سفاکیت کا راج ہے اور مجال ہے کسی عالمی ادارے کے کان پر جوں تک رینگی ہو، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اہل مغرب کے سامنے جنگی جرائم وہ ہیں جو ان کے مفادات کے منافی ہو، کوئی بھی اس کا سیاسی حل نکالنے پر تیار نہیں ہے۔عالمی عدالت انصاف فیصلہ دے چکی ہے کہ اسرائیل فلسطینی نسل کشی میں ملوث ہے جبکہ عالمی عدالت انصاف کو فوری طور پر جنگ بندی کا حکم دینا چاہیے تھا۔ دنیا کو یہ بات کیوں نہیں سمجھ آرہی ہے کہ فلسطین کھنڈر بن چکا ہے، وہاں باقاعدہ نسل کشی کی جا رہی ہے، یہ تنازع کسی عمارت یا زمین کا نہیں ہے جہاں معاملے کو طول دیا جا سکے، یہ معصوم انسانی جانوں کا مسئلہ ہے، جسے فوری طور پر حل ہوجانا چاہیے تھا مگر اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے معاملے کو طول دیا جا رہا ہے، سبھی جانتے ہیں کہ 1947میں اقوام متحدہ نے اسرائیل اور فلسطین دونوں کے قیام کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن اس دوران جنگ چھڑنے کے نتیجے میں اسرائیل نے فلسطین کے بیشتر حصے پر ناجائز قبضہ کرلیا تھا، وہ تبھی سے اپنے توسیع پسندانہ منصوبوں پرکاربند ہے، اسرائیل کا اصل نشانہ یروشلم ہے، جسے وہ اپنا سب سے بڑا مذہبی مرکز قرار دینے پر مصر ہے، مگر وہ اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھا ہے کہ یہ وہی یروشلم ہے، جہاں قبلہ اول موجود ہے جس کے ساتھ تمام دنیا کے مسلمانوں کی مذہبی وابستگی ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کو کچلنے کے لیے ہر قسم کے غیر انسانی ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ اسرائیل پوری طرح فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کرکے اپنا راج قائم کرنا چاہتا ہے، لیکن جانباز فلسطینیوں کی مزاحمت ناجائز صہیونی ریاست کے سامنے سیسہ پلائی دیوارکی مانند کھڑی ہے، دلیر فلسطینی خون کے آخری قطرے تک اپنی سرزمین کی بازیابی کے لیے سینہ سپر رہیں گے۔ یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عرب ممالک اور ایٹمی طاقت پاکستان نے فلسطینیوں کی حمایت کیلئے وہ بھرپور کردار ادا نہیں کیا جو اشد ضروری ہے، عالمی برادری کو بھی فلسطینیوں کی حمایت کیلئے عملی اقدامات اٹھانا چاہیے، غزہ میں اٹھارہ مارچ سے نئی اسرائیلی دہشت گردی جاری ہے، صہیونی فوج نے ایک دن میں مزید 46 فلسطینیوں کو شہید کر دیا، 7اکتوبر 2023ء سے اب تک 50ہزار 715 فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے، فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کیلئے آج عالم گیر ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے، لہٰذا ہمیں اس ہڑتال کی کامیابی کیلئے متحرک کردار ادا کرنا چاہیے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے حکمران اس سلسلے میں عالمی برادری کا ضمیر بیدار کریں اور ہم اسرائیلی جارحیت کیخلاف بھرپور آواز اٹھائیں اور اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ بھی کیا جائے۔
