5

بیماریوں کے باعث پولٹر انڈسٹری کی پیداوار ی صلاحیت میں کمی

فیصل آباد(سٹاف رپورٹر) پاکستان کی پولٹری صنعت کو بیماریوں کے باعث پیداواری صلاحیت میں کمی اور اموات کی وجہ سے سالانہ 30کروڑ روپے کا بھاری مالی نقصان بردا شت کرنا پڑتا ہے جس پر جدید تشخیصی ٹیکنالوجی، علاج اور حفاظتی اقدامات کے فروغ سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے چوتھے دو روزہ قومی تربیتی کورس بعنوان ”جدید طریقوں کے ذریعے پولٹری بیماریوں کی تشخیص” سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تربیت کا انعقاد ڈیپارٹمنٹ آف پیتھالوجی فیکلٹی آف ویٹرنری سائنسز زرعی یونیورسٹی فیصل آباد اور ورلڈ ویٹرنری پولٹری ایسوسی ایشن (پاکستان برانچ) کے اشتراک سے کیا گیا۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وائس چانسلر ڈاکٹر ذوالفقار علی نے کہا کہ ٹیکسٹائل کے بعد پولٹری ملک کی دوسری سب سے بڑی صنعت بن چکی ہے جو عوام کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ انہوں نے پولٹری بیماریوں پر قابو پانے کے لیے جدید تشخیصی آلات، علاج اور حفاظتی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ پولٹری کے لیے ایسی خوراک پر تحقیق کی ضرورت ہے جو مختلف بیماریوں کے خلاف مدافعتی نظام کو مضبوط کرے۔ انہوں نے کہا کہ اس شعبے کی ترقی کے لیے اکیڈمی اور صنعت کے درمیان مضبوط روابط قائم کرنا ہوں گے۔ ڈین فیکلٹی آف ویٹرنری سائنس ڈاکٹر شاہد محمود نے کہا کہ ماضی میں پولٹری بیماریوں کے علاج میں ”ہٹ اینڈ ٹریٹ” طریقہ کار استعمال ہوتا تھا لیکن اب ہمیں جدید تشخیص کی طرف منتقل ہونا ہوگا۔ انہوں نے ویٹرنیرینز پر زور دیا کہ وہ جدید تشخیص سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی فیکلٹی کے زیراہتمام ویٹرنیریز کی ایلومنائی اجلاس کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس سے لائیوسٹاک اور پولٹری سیکٹر کو درپیش مسائل کے حل کے لئے مشترکہ کاوشیں عمل میں لائی جائیں گی۔ ورلڈ ویٹرنری پولٹری ایسوسی ایشن (پاکستان برانچ) کے نمائندے خالد نعیم خواجہ نے کہا کہ یہ تربیت ویٹرنیرینز کو جدید تشخیصی طریقوں سے استفادہ کرنے کی جانب ایک قدم ہے جو پولٹری سیکٹر کی ترقی میں ٹھوس نتائج لائے گا۔چیئرمین پیتھالوجی اور سیکریٹری ڈبلیو وی پی اے پاکستان ڈاکٹر محمد کاشف سلیم نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی پیتھالوجی لیب کسانوں کو 70 مختلف ٹیسٹوں کی سہولت فراہم کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولٹری فیڈ کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے یونیورسٹی نے سویا بین کی کاشت کے فروغ کے لیے 1000 کھیتوں پر کاشت شروع کروائی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈبلیو وی پی اے دنیا کے 60 ممالک میں فعال ہے۔اس موقع پر ڈاکٹر عائشہ نے بھی خطاب کیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں