تحریر ‘خالد محمود اعظم آبادی
علامہ احسان الٰہی ظہیر اور ان کے رفقاء اہل حدیث کی شہادت ایک ایسا درد انگیز اور المناک واقعہ ہے جس کی مثال برصغیر کی تاریخ میں اس سے قبل ناپید ہے یہ مسلک اہلحدیث کی پوری قیادت کو ختم کرنے کی ایک سوچی سمجھی اور منظم سازش تھی دراصل علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کی موثر اور جاندار شخصیت نے جماعتی تنظیم کو ایسا جاندار اور موثر بنا دیا تھا کہ باطل قوتیں حیران اور لرزہ بہراندام تھیں علامہ مرحوم نہ صرف ایک عالم دین تھے بلکہ وہ بیک وقت عظیم سکالر’ محقق’ بالغ نظر سیاست دان’ داعی تحریک اور مملکت خطابت کے بلا شرکت غیرے حکمران تھے۔ قدیم و جدید علوم پر یکساں نظر رکھتے تھے تحریر و تقریر پر پوری طرح قادر تھے’ فصاحت و بلاغت سے لبریز ٹھوس علمی و عقلی دلائل سے بھرپور ہونے کے ساتھ ساتھ جاندار اور موثر ہوتی تھی جس سے عوام اور خواص یکساں مستفید ہوتے تھے ملک کے طول و عرض میں سیاسی و مذہبی جلسے ان کی شرکت کے بغیرکامیاب نہ ہوتے تھے۔
الغرض علمی’ سیاسی اور مذہبی میدان میں علامہ شہیدنے اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا تھا نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ممالک میں بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے عالم عرب کو تو انہوں نے اپنی تقاریر اور تصانیف سے ایک نئی سوچ اور رنگ دیا تھا جس سے ان کے مخالفین گھبرا گئے تھے۔حقیقت تو یہ ہے کہ مصلحت سے بے نیاز انہوں نے جس طرح کلمہ حق بلند کیا آج کے دور میں وہ انہی کا حصہ تھا اور عطیہ خداوندی تھا جس پر بجا طور پر فخر کیا جا سکتا ہے۔
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا …… ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ علامہ شہید اور ان کے رفقاء کو انہی مصلحت سے بے نیاز تقاریر و تصانیف اور آوازہ حق کو بلند کرنے کے جرم میں ان کے خلاف ناپاک کاررروائی کی گئی کیونکہ دلائل و براہین سے جواب ناممکن ہو گیا تھا اور جب کوئی دلائل کی جنگ ہار جائے تو پھر وہ تشددپر اتر آتا ہے اور ظالموں نے یہی طریقہ اختیار کیا 23مارچ 1987ء کی رات مینار پاکستان کے سائے تلے سیرت النبیۖ کے جلسہ عام میں پاکستان کی مذہبی تاریخ کے پہلے ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے عالم اسلام کی عظیم شخصیت علامہ احسان الٰہی ظہیر کو دھماکہ سے ان کے دیگر رفقاء سمیت ہم سے جدا کرنے کی مذموم سازش کھیلی گئی بالآخر 30مارچ کو علامہ احسان الٰہی ظہیر سعودی عرب میں ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جدا ہو کر جنت البقیع جا سوئے اللہ ان کی قبر پر کروڑوں رحمتوں کی برخا برسائے آمین ۔ علامہ شہید کی شہادت کے بعد ملک بھر کے صحافیوں کے قلم ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر جنبش کرنے لگے تھے۔ نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ممالک کے صحافی ان سے بھی آگے تھے کیونکہ دنیا کے بیشتر ممالک میںآپ کی تقاریر اور تصانیف سنی اور پڑھی جاتی تھی۔
علامہ شہید درجنوں کتابوں کے مصنف اردو کے علاوہ زیادہ تصانیف عربی میں تھی اب ان کے تراجم اردو ‘ فارسی’ انگریزی اور فرانسیسی زبانوں میں بھی ہو چکے ہیں۔
بلا شبہ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید علم و عمل میں سر بلند’ حسن و جمال میں ممتاز’ دولت و ثروت میں غنی’ تقریر و تحریر میں اپنی مثال آپ اور سیاست کے بادشاہ تھے’ انسانی عظمت کے نشان’ حق و صداقت کی آواز’ توحید وسنت کے داعی ‘جمہوریت کے علمبردار’ دیناسلام کے عظیم مبلغ’ محبت رسولۖ کے جذبہ سے سرشار ایک محب وطن انسان تھے۔ علامہ شہید شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں قوم آج تک اس سانحہ کے محرکات کو جاننے کے لے بیتاب ہے مگر افسوس کہ 36سال کا طویل ترین عرصہ گزر جانے کے باوجود حکومت قاتلوں کا تعین کر کے انہیں سزا نہیں دے سکی۔ جو کہ ملکی تاریخ کا بہت بڑا المیہ ہے۔
کلیوں میں میں سینے کا لہو دے کے چلا ہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کریں گی
ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید ‘ علامہ حبیب الرحمن شہید’ مولانا عبدالخالق قدوسی شہید’ محمد خاں نجیب شہید سمیت دیگر شہید سانحہ قلعہ لچھن سنگھ لاہور کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔
33