56

تبلیغی جماعت فیصل آباد کے اولین کارکن حاجی زاہد عزیزی (ہمارے ابوجی!)

پچاس کی دہائی کے اوائل کی ایک صبح، خدائے بزرگ وبرتر کے نظامِ تخلیق انسان سے جن گھروں میں خوشیوں برکتوں کا سماں بندھنے والا تھا ان میں ایک گھر حاجی محمد ابراہیم کا بھی تھا۔امرتسر کے مہاجر حاجی محمدابراہیم، حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی نوراللہ مرقدہ کے تربیت یافتہ، حاجی عبدالوہاب رحمہ اللہ کے کے ہمسفر اور لائلپور (فیصل آباد) میں دعوت وتبلیغ کے سرگرم بانیوں میں سے تھے، ان کے ہاں تین بیٹوں اور ایک بیٹی کے بعد ایک اور بیٹے کا جنم خاندان کے لیے خوشیوں، رحمتوں، برکتوں کا سبب ہوا۔نومولود کا نام محمد زاہد تجویز ہوا، چند دن بعد ایک اللہ والے، مولانا عبدالعزیز دعاجو رحمہ اللہ کی آمد ہوئی تو محمد زاہد کی تحنیک بھی کی اور ساتھ ہی فرمایا کہ آج سے یہ بچہ محمد زاہد سے محمد زاہد عزیزی ہوا۔ یعنی عزیزی کا لقب عطا کیا۔ابتدائی دینی تعلیم کے لیے محمد زاہد عزیزی کو جامع مسجد قادری سنت پورہ میں قاری عبدالغنی رحمہ اللہ کے پاس بٹھا دیا گیا۔ کچھ مدت بعد عصری تعلیم کے لیے صابریہ سراجیہ ہائی اسکول داخل کرایا گیا۔ میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج لائلپور (جی سی یونیورسٹی فیصل آباد) سے انٹر میڈیٹ تک تعلیم حاصل کی، یہاں ایک تقریب میں تلاوتِ قرآن کریم پر اس وقت کے صدرِ مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے خصوصی انعام سے نوازا۔خوش نصیب محمد زاہد عزیزی کو قاری عبدالغنی، مولانا محمد صاحب انوری،مولانا مفتی زین العابدین اور مولانا عزیز الرحمن انوری رحمہم اللہ کی محبتیں اور شفقتیں حاصل رہیں۔ دینی اور تبلیغی ماحول میں پلنے بڑھنے والے محمد زاہد عزیزی کو احادیث مبارکہ سے موذن کے فضائل سن کر اذان دینے کا شوق ہوا تو جامع مسجد انوری اور جامع مسجد قادری سنت پورہ میں گاہے گاہے اذان دینا شروع کی۔ 1973 میں والدہ کے ساتھ حج کا سفر ہوا تو حرم مکی کے موذن کی طرز پر اذان کی مشق شروع کی۔ واپس آتے ہی جامع مسجد کچہری بازار (فیصل آباد) میں مغرب کی اذان دینے کا سلسلہ شروع کیا جو 25برس تک جاری رہا۔1974 کی تحریکِ تحفظِ ختمِ نبوت کے جلسے کے لیے تشریف لانے والے،امیر کل جماعتی مجلسِ عمل تحفظِ ختمِ نبوت محدث العصر علامہ محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے جامع مسجدمیں اذان سن کر سر پر دستِ شفقت رکھا اور ماتھا چوما۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ کی تشریف آوری ہوئی تو محمد زاہد عزیزی کو ان کے ساتھ اصلاحی تعلق قائم کرنے کا شرف حاصل ہوا اور خدمت کا موقع بھی ملا۔ولء کامل حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ کے ایک گمنام مگر عالی مقام مرید باصفا حاجی ہدایت اللہ ملتان میں رہائش پذیر تھے۔ 1975 میں ان کی بیٹی سے نوجوان محمد زاہد عزیزی کا نکاح ہوا۔اللہ نے انھیں چار بیٹے محمد ابراہیم خلیل ،محمدابراہیم جمیل، عبدالعزیز (راقم) عبدالرحمن اورچاربیٹیاں عطا فرمائیں۔80 کی دہائی میں رائیونڈ سے ایک جماعت فیصل آباد آئی، چلے گئی اس جماعت میں مدرسہ عربیہ رائیونڈ کے فارغ التحصیل ایک نوجوان عالم بھی شامل تھے، حاجی زاہد عزیزی (ابو جان) نے جماعت بالخصوص نوجوان عالم دین کو گلی گلی، محلے محلے خصوصی گشت کرائے۔ یہ نوجوان عالم دین مولانا طارق جمیل تھے۔ مولانا طارق جمیل نے ابو جی کے جنازے کے موقع پر بتایا کہ جب مجھے فیصل آباد میں کوئی جانتا نہیں تھا اس وقت مرحوم نے مجھے اپنی موٹرسائیکل پر گلی اور محلوں میں گشت کرائے۔ہمارے دادا جان (حاجی محمد ابراہیم) نے 1981 میں گلفشاں کالونی میں ایک پلاٹ خرید کر مسجد کی تعمیر شروع کی، مسجد کا نام اپنے پوتے اور ہمارے بڑے بھائی جان ،محمد ابراہیم خلیل کی نسبت سے جامع مسجد الخلیل رکھا۔ سنتِ اسماعیل علیہ السلام ادا کرتے ہوئے مسجد کی تعمیر میں ابو جان (حاجی محمد زاہد عزیزی) اپنے والد گرامی کے ساتھ پیش پیش رہے۔ اللہ تعالی1987 میں ابو جان کو دوسرے حج کی سعادت عطا فرمائی۔ 1992 میں جامع مسجد الخلیل کی تعمیرِ نو میں بھی دادا جان کے شانہ بشانہ رہے۔ 1997 میں اسی مسجد میں مقامی بچوں کے لیے حفظ وناظرہ قرآن کریم کا انتظام کیا گیا۔ اس درسگاہ کا نام شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ کے خلیفہ مجاز حضرت مولانا یحیی مدنی کی محبت اور اجازت سے الخلیل الاسلامی رکھا۔ حضرت مولانا یحیی مدنی رحمہ اللہ نے یہ نام حضرت مولانا خلیل احمد سہانپوری نوراللہ مرقدہ کی نسبت ومحبت میں رکھا تھا۔ دادا جان (حاجی محمد ابراہیم) کی وفات کے بعد 2000 سے مسجد کا تمام انتظام وانصرام ابو جی(حاجی محمد زاہد عزیزی)کے سپرد ہوا۔دادا جان کے ساتھ ان کا محبت واحترام کا مثالی تعلق تھا۔ کبھی والد کی نافرمانی کے کبیرہ گناہ کے مرتکب نہ ہوئے۔ ہمیشہ دادا جان کی ہر بات کو من وعن تسلیم کرنا، ان کے دوستوں اور تعلق داروں کے ساتھ ادب واحترام سے پیش آنا ابو جان کا عمر بھر کا شعار رہا۔ یہی وجہ تھی کہ فیصل آباد کے خانواد انوری کے چشم وچراغ مولانا خلیل الرحمن انوری سے عمر میں بڑھے ہونے کے باوجود ہمیشہ احترام کا معاملہ کیا۔ابو جان نے ہم چاروں بھائیوں کے حفظِ قرآن کے لیے سلسل پانی پتی کے معروف بزرگ خادم القرآن حضرت مولانا قادری محمد یاسین مدظلہ سے رابطہ کیا اورہم چاروں کو اللہ رب العزت نے حضرت بڑے قاری صاحب کی سرپرستی میں حفظِ قرآن کی دولت سے مالامال فرمایا۔ ابو جان نے1996 میں محبوب العلما والصلحا حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتھم عالیہ سے اصلاحی تعلق قائم کیا۔ پھر پورے گھرانے کو حضرت، سے بیعت کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت ے ہمارے بڑے بھائی مولانا ابراہیم خلیل حفظہ اللہ تعالی کو 2022 میں جھنگ اجتماع کے موقع پر اجازت وخلافت سے بھی سرفراز فرمایا۔ ہمارے ابو جان کو اہلِ حق کی جماعتوں، تنظیموں اور روحانی سلسلوں کے قائدین، اکابر اور بزرگوں کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ نام ونمود اور تشہیر وتصویر سے دور رہ کر دین کے تمام شعبوں سے دامے درمے قدمے تعاون ان کا شعار تھا۔ متعدد مساجد کی تعمیر وتزئین اور رفاہِ عامہ کے لیے سرگرم رہنا ابوجی کی حیاتِ مستعار کا ایک روشن پہلو ہے۔ ہمارے والدِ گرامی نے تجارت ومعاملات میں سچائی، دیانت وامانت اور شرعی اصول وضوابط کی پاسداری کو ہمیشہ مقدم رکھا۔ ان کے حلق احباب میں مشہور تھا کہ اپنے معاملات ومسائل میں حاجی زاہد صاحب سے مشورہ کرلیا جائے کہ وہ انتہائی سمجھداری اور فہم وفراست سے مشورہ دیا کرتے ہیں۔اللہ رب العزت نے 2022 میں انہیں دو بیٹوں (راقم، اور بھائی حافظ عبدالرحمن) دو بیٹیوں اور دامادوں سمیت عمرہ کی سعادت بخشی۔ مدینہ منورہ کی حاضری کے وقت ان کا شوق وجذبہ قابلِ دید تھا، وہیں نمازِ جمعہ کی تیاری کرتے ہوئے گرنے سے کافی گہرا زخم لگا۔ نقاہت اور کمزوری کے باوجود مسجد نبوی میں جانا اور گھنٹوں ادب واحترام سے بیٹھے رہنے کے معمول میں یہ زخم رکاوٹ نہ بن سکا۔ستمبر 2024 کے آخر میں ابو جان کو ضعف اور معدہ کی کمزوری کے باعث نجی ہسپتال میں داخل کیا گیا، چند دن زیر علاج رہنے کے بعد 8اکتوبر بروز منگل تہجد کے وقت جان بارگاہ الہی میں پیش کردی۔بلال پارک نزد جامع مسجد الخلیل میں مولانا طارق جمیل ،حضرت بڑے قاری صاحب ، مولانا زاہد محمود قاسمی سمیت علما ،مدرسین ، حفاظ ، قرا ،طلبہ دین،تاجر رہنمائوں،انتظامیہ کے نمائندوں غرض ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نے حضرت مولانا حافظ ذوالفقار احمد نقشبندی کی امامت میں ابوجان کی نمازِ جنازہ ادا کی۔ رحم اللہ علیہ رحم واسع۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں