عالمی بنک نے پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کی مخالفت کر دی بنک کے نائب صدر مارٹن ریزر نے کہا بجلی مہنگی کرنے کی ضرورت نہیں لیکن بجلی کے لائن لاسز کو کم کیا جائے مقامی قرضے مؤخر کرانے سے بینکنگ سیکٹر اور سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے اس لئے پاکستان کو مقامی قرضے مؤخر کرانے کے عمل میں محتاط رہنا ہو گا معاشی پالیسیوں پر عملدرآمد ضروری ہے، عالمی بنک کی جانب سے پاکستان کے روشن مستقبل کیلئے ممکنہ اصلاحات پر مبنی جاری کردہ رپورٹ میں پاکستان کو درپیش 6بڑے مسائل کی نشاندہی کی ہے جس کے مطابق پاکستان میں توانائی کا شعبہ معیشت پر بھاری ہے توانائی شعبے میں گردشی قرضہ مالی مشکلات پیدا کر رہا ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پالیسیوں میں عدم تسلسل کی وجہ سے سرمایہ کاری کا فقدان ہے پاکستان کا زرعی شعبہ بھی غیر پیداواری اور جمود کا شکار ہے جبکہ ہیومن کیپیٹل کے بحران کا بھی سامنا ہے دستیاب انسانی وسائل کا کم استعمال پیداوار اور ترقی کو متاثر کر رہا ہے مالی سال 2022ء کے اختتام تک مالی خسارہ 22سال کی بلند ترین شرح 7.9فی صد تک پہنچ گیا اور پاکستان کے ذمے قرضے مقررہ قانونی حد سے زیادہ 78فیصد کی بلند شرح پر ریکارڈ کیا گیا پالیسیوں میں عدم تسلسل کے باعث سرمایہ کاری اور برآمدات کا فقدان ہے زرعی شعبے کا جی ڈی پی میں حصہ 23فیصد ہے زرعی شعبہ 40 فیصد لیبر فورس کو روزگار فراہم کرتا ہے’ پاکستان کو ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو 2سے 3 فیصد تک بڑھانا ہو گا محض ٹیکس وصولیاں کرنا ناکافی ہے اخراجات اور ٹیکس اصلاحات پر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے زرعی شعبے کو سہولیات دیئے بغیر ٹیکس ریونیو میں اضافہ مشکل ہو گا، نائب صدر عالمی بنک نے کہا الیکشن سے قبل سیاسی جماعتوں سے معاشی اصلاحات پر بات چیت ہوئی ہے معاشی اصلاحات کا عمل جاری رہنا چاہیے معاشی پالیسیوں پر عملدرآمد ضروری ہے،، عالمی بنک نے پاکستان کو درپیش 6بڑے مسائل کی نشاندہی کی ہے ان مسائل کے حل کیلئے اقدامات ناگزیر ہیں جن مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں سب سے اہم مسئلہ گردشی قرضوں کا ہے جن کی وجہ سے ملک کی معیشت بحران دربحران کا شکار ہو رہی ہے عالمی بنک نے گردشی قرضے کم کرنے پر زور دیا ہے اور ساتھ ہی بجلی کی قیمت میں مزید اضافہ نہ کرنے کی تجویز دی ہے عالمی بنک نے توانائی کے شعبہ کو ملکی معیشت کیلئے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں لائن لاسز کو کم کرنا وقت کی ضرورت ہے ملکی برآمدات بڑھائے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں عالمی بنک نے زرعی شعبہ پر بھی توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کو محض ٹیکس وصولیاں کرنا کافی نہیں بلکہ ٹیکس اصلاحات پر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے جبکہ پالیسیوں میں عدم تسلسل کی وجہ سے سرمایہ کاری کا فقدان ہے پاکستان کا زرعی شعبہ بھی غیر پیداواری اور جمود کا شکار ہے مالی سال 2022 کے اختتام تک مالی خسارہ گزشتہ دو دہائیوں کی بلند ترین شرح 7.9 فیصد تک پہنچ گیا جو لمحہ فکریہ ہے،، یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ہمارے ملک کا توانائی کا شعبہ ملک کی معیشت کو بہت نقصان پہنچا رہا ہے ہر پندرہ یا 20روز بعد بجلی کی سپلائی کرنے والی کمپنیاں نیپرا کو بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرنے کی درخواست دے رہی ہیں کبھی لائن لاسز کی مد میں کبھی فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اور کبھی بجلی کے پراجیکٹس کی بحالی کے نام پر بجلی صارفین کی جیبوں سے اربوں روپے نکلوائے جاتے ہیں مگر کوئی ادارہ یا عدلیہ بجلی صارفین پر ڈالنے والے اربوں روپے کے بوجھ بارے نوٹس نہیں لیتے عالمی بنک نے واضح کہا ہے کہ مزید بجلی مہنگی کرنے کے بجائے اصلاحات پر توجہ دی تو مشکلات کم ہو سکتی ہیں جن بڑے 6مسائل کی نشاندہی عالمی بنک کی رپورٹ میں کی گئی ہے۔ پاکستان کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے ان مسائل کے حل پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے اگر نشاندہی کے باوجود ان مسائل کو نظرانداز کیا گیا تو توانائی کا شعبہ معیشت کیلئے بوجھ بنا رہے گا۔
40