74

حکومتی اخراجات میں کمی کیلئے کمیٹی کا قیام (اداریہ)

موجودہ حکومت نے اخراجات کم کرنے کیلئے وفاقی حکومت کے انتظامی ڈھانچے کی ڈائون سائزنگ کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے وزیراعظم شہباز شریف نے 7رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو سرکاری اخراجات میں کمی لانے کیلئے عملی منصوبہ پیش کریگی، کمیٹی کے چیئرمین ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن ہوں گے ممبران میں سیکرٹری کابینہ ڈویژن سیکرٹری فنانس ڈویژن’ سیکرٹری آئی اینڈ پی راشد محمود لنگڑیال ڈاکٹر قیصر بنگالی ڈاکٹر فرخ سلیم’ ڈاکٹر محمد نوید افتخار شامل ہیں، اخراجات میں کمی لانے کیلئے چار نکاتی ٹی آر اوز بھی وضع کر دیئے گئے ہیں، کمیٹی فنانس ڈویژن کی قومی کفائت شعاری کمیٹی کی رپورٹ سمیت اب تک بنائے گئے تمام کمیشن کی رپورٹس کا جائزہ لے گی کمیٹی کا مقصد یہ ہے کہ ادارہ جاتی اصلاحات کی جائیں وفاقی حکومت کی ڈائون سائزنگ اور رائٹ سائزنگ کیلئے اب تک ہونے والی پیش رفت کا بھی جائزہ لے گی 7 رکنی کمیٹی تمام سفارشات پر مقررہ مدت میں عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے حکمت عملی طے کریگی کمیٹی اخراجات کو کم کرنے کیلئے پنشن اسکیم’ پی ایس ڈی پی یا دوسری تجاویز دے گی، کمیٹی ضروری سمجھنے پر سرکاری یا نجی شعبے سے کسی بھی شخص کی مدد لے سکے گی، کمیٹی اپنی رپورٹ ایک ہفتہ کے اندر وزیراعظم کو پیش کرے گی کابینہ ڈویژن نے کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کی سربراہی میں قائم کمیٹی میں سیکرٹری فنانس، سیکرٹری کابینہ ڈویژن، سیکرٹری آئی اینڈ پی سمیت تین اہم شخصیات ممبران شامل ہیں جو قابلیت ذہانت اور مثبت تجاویز دیں گے اور حکومت کے اخراجات میں کمی لانے کیلئے قابل عمل منصوبہ سازی کر کے اس پر عملدرآمد کرائیں گے’ وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ اب ماسوائے کارکردگی دکھانے اور پاکستان کو موجودہ معاشی بھنور سے نکالنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں’ موجودہ حکومت کے بارے میں سیاسی حلقوں اور عام آدمی کے اندازے غلط ثابت ہو سکتے ہیں کہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چلے گی! حکومت کمزور نہیں اسکی سب سے بڑی وجہ طاقت ور حلقوں کی سپورٹ ہے گزشتہ ہفتہ کور کمانڈر کانفرنس میں فوج کی طرف سے شہباز حکومت کو مکمل سپورٹ کرنے کا اعلان کیا گیا شہباز شریف اور موجودہ عسکری قیادت کا گزشتہ پی ڈی ایم حکومت کے دور کا ورکنگ ریلیشن شپ کا تجزیہ بہت اچھا رہا اور جو انڈر سٹینڈنگ اس وقت پیدا ہوئی اسی کی بناء پر موجودہ حکومت کے آگے چلنے کا امکان ہے معیشت کی بہتری کیلئے سول اور فوجی قیادت مل کر کام کریں گے جس کی بنیاد شہباز شریف کی گزشتہ حکومت کے دوران SIFC کی صورت میں رکھ دی گئی تھی گویا شہباز شریف کی حکومت کو فوجی قیادت کی مکمل حمایت حاصل ہے اور یہ وہ نکتہ ہے جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی بھی سول حکومت کے استحکام کیلئے ضروری سمجھا جاتا ہے حکومت کیلئے عمران’ تحریک انصاف’ مولانا فضل الرحمان’ کوئی دوسرا سیاسی راہنما یا سیاسی جماعت خطرہ نہیں پیپلزپارٹی جو وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں مگر وہ شہباز شریف کی حکومت کی حمائت جاری رکھے گی، شہباز شریف نے کابینہ کے اراکین کو بھی کہہ دیا ہے کہ وہ کارکردگی دکھائیں گے تو ہی ساتھ چل سکتے ہیں، اور اگر حکومت معاشی چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر ایک مضبوط حکومت ہی رہے گی اگر مشکل فیصلے کرنے سے حکومت کتراتی رہی تو معاشی مشکلات پر قابو پانا دشوار ہو گا خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کی نجکاری نہ کر سکی تو پھر بھی حکومت نہیں چل سکتی بے شک معاشی مشکلات کا حل فوری تو ممکن نہیں لیکن چند ہفتوں مہینوں میں حکومتی فیصلوں اور پالیسیوں کو دیکھ کر اس بات کا تعین ضرور ہو جائے گا کہ شہباز حکومت کا مستقبل کیا ہو گا،، وزیراعظم شہباز شریف میثاق معیشت اور میثاق مفاہمت کی سیاسی جماعتوں کو دعوت دے چکے ہیں انتظامی اخراجات کم کرنے کیلئے 7رکنی کمیٹی کا قیام موجودہ حکومت کا پہلا قدم ہے علاوہ ازیں وفاقی کابینہ کو کارکردگی دکھانے کی ہدایت جاری کرنا بھی بہت اہم ہے اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے شہباز شریف نے سی پیک پر کام کی رفتار تیز کرنے کا عندیہ دیا ہے یہ گیم چینجر منصوبہ 2030ء میں مکمل ہوتا ہے موجودہ حکومت نے اگر اس منصوبہ کو اپنے دور میں مکمل کرا دیا تو یہ ملک وقوم کی بہت بڑی خدمت ہو گی سی پیک کی بدولت پاکستان دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت بنے گی عسکری قیادت کی مکمل حمایت کیوجہ سے حکومت کو معاشی اہداف حاصل کرنے میں آسانی ہو گی ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنی تمام تر توجہ معیشت کو سنبھالا دینے پر مرکوز کرے تاکہ ملک وقوم کی امنگوں پر پورا اتر سکے مہنگائی کے خاتمہ اور بے روزگاری جیسے مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ناگزیر ہے عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے لہٰذا حکومت کو دونوں مسائل سے نمٹنے کیلئے بھی مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں