8

حکومت اور اپوزیشن اختلافات ختم کرنے کا راستہ نکالیں (اداریہ)

اس وقت ملک کو سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے قوم ایک عجیب منظر دیکھنے پر مجبور ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کے زعما ایک دوسرے پر آتشیں لفظوں کی گولہ باری کر رہے ہیں دونوں ہی اپنی اپنی ضد پر قائم ہیں ایک دوسرے کے خلاف یہ زہرافشانی نوجوانوں کے ذہنوں میں تلاطم پیدا کر رہی ہے اور نئی نسل کو ملک کے مستقبل سے مایوس کر رہی ہے سیاست ہمیشہ ریاست اور قوم کی خدمت کیلئے ہوتی ہے ذاتی مفادات کا حصول بھی ایک حد میں رہ کر ہی کیا جا سکتا ہے مگر ہمارے ملک میں سیاسی عدم استحکام ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا المیہ یہ ہے کہ اس وقت ہر طرح کی لائن روندی جا رہی ہے، سیاسی رواداری کی حد’ ایک دوسرے کو برداشت کرنے’ ملکی مفادات پر اپنے مفاد کو قربان کرنے اور ہر شے پر وطن کو ترجیح دینے کی تمام ریڈلائنز کب کی روندی جا چکیں’ ابھی آگے نہ جانے کیا ہو گا کیونکہ سیاسی کشیدگی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی’ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ذمہ داری ہے کہ نفرت اور عناد کے شعلوں کو ہوا دینے کے بجائے بجھانے کی کوشش کریں زخموں پر نمک چھڑکنے کے بجائے مرہم رکھنے کی کوشش کریں اپوزیشن کی بار بار وفاقی حکومت پر چڑھائی اپوزیشن اور حکومت میں مزید دوریاں پیدا کر رہی ہے مسلح جتھوں کا اسلام آباد پر یلغار کرنا افسوسناک ہی نہیں بلکہ قابل مذمت بھی ہے جو کچھ ملک کی ایک سیاسی جماعت حکومت کے ساتھ دشمنی میں کر رہی ہے ایسا کسی بھی جمہوری ملک میں نہیں ہوتا پی ٹی آئی نے اپنی فائنل کال کے نام پر زور اور طاقت کا مظاہرہ کر دکھایا ریاست نے اپنی رٹ قائم کر کے دکھا دی اب فریقین کو چاہیے کہ ملک کی خاطر ملک آگے بڑھیں اختلافات کو ختم کرنے کا راستہ نکالیں اقتدار’ اختیار اور طاقت حکومت کے پاس ہے کچھ دینے کا اختیار اسی کا ہے لہٰذا لازم ہے کہ حکومت اب بات چیت کا ڈول ڈالے اور اپوزیشن پر بھی یہ لازم ہے کہ وہ مثبت جواب دے اس وقت ملک میں سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے تاکہ قیام امن کے ساتھ ساتھ اندرونی وبیرونی سرمایہ کاری کے لیے فضاء سازگار بنائی جا سکے 90 کی دہائی میں وفاق اور پنجاب میں ایک دوسرے سے متحارب جماعتیں برسراقتدار رہی ہیں احتجاج بھی ہوتا رہا ہے لیکن کبھی کسی اکائی نے وفاق پر چڑھائی کی دھمکی دی نہ چڑھائی کرنے کی کوشش کی اسے ملک کی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ ایک ایسے وقت جب ملک کو یکجہتی کی ضرورت ہے اور عالمی سطح پر خطے میں بدلتی ہوئی صورتحال میں وفاق اور صوبہ ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں، کوئی شبہ نہیں کہ کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی یا گورنر راج مسئلہ کا حل نہیں بلکہ اس سے مزید حالات بگڑنے کا خدشہ ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اناپرستی اور ضد کو چھوڑ کر سیاسی جماعتیں حکومت کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے سیاسی مسائل کا حل نکالیں بات چیت کے بغیر سیاسی عدم استحکام سمیت کسی مسئلے کا حل ممکن نہیں حکومت اور اپوزیشن جتنی جلدی ہو سکے اس حققت کو تسلیم کر لیں اتنا ہی بہتر ہے سیاسی استحکام سب کی ذمہ داری ہے دیکھا جائے تو اس میں ایک بڑی رکاوٹ حزب اختلاف بھی ہے 9مئی کا حملہ اور پچھلے دنوں اسلام آباد میں ہونے والے واقعات سیاست نہیں جو اپوزیشن جمہوریت پر یقین نہ رکھتی ہو وہ کیسے امید رکھ سکتی ہے کہ اس کے ساتھ جمہوری رویہ اپنایا جائے کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ لشکر بنا کر حملہ کر دے اب تک اپوزیشن اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور اب سول نافرمانی کی تحریک چلانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں سول نافرمانی کی تازہ ترین کال پارٹی کے بیشتر راہنمائوں کے نزدیک قابل عمل نہیں اس وقت سیاسی مسائل سے نمٹنے کا واحد حل مذاکرات ہیں اختلافات ختم کر کے ایک میز پر بیٹھنا ضرورت ہے سیاسی اختلافات جتنی جلدی ختم ہوں گے اتناہی ملکی مسائل کے لیے بہتر ہے اگر اپوزیشن اور حکومت نے اس اہم ترین مسئلہ کو نظرانداز کیا تو اس کے اچھے نتائج نکلنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں