پی ٹی آئی کے مذاکراتی عمل سے باہر نکلنے اور وزیراعظم کی جانب سے دوبارہ بات چیت کی پیشکش کی مسترد کئے جانے پر حکومت نے بھی مذاکراتی عمل ختم کر دیا حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کے لیے حکومتی کمیٹی کے ترجمان اور مسلم لیگ (ن) کے راہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے تصدیق کر دی، انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سے گاڑی چھوٹ گئی، مذاکراتی عمل ختم کر دیا پی ٹی آئی والے جس تیزی سے مذاکرات کے لیے آئے تھے اسی تیزی سے واپس چلے گئے ان کا واحد اور حقیقی مطالبہ عمران اور دیگر راہنمائوں کی فوری رہائی تھی جس کا راستہ یہی ہے کہ وہ وزیراعظم سے کہیں کہ وہ صدر کو ان کی سزا معاف کرنے کی سفارش کریں مسلم لیگ (ن) کے ترجمان نے کہا پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں بہت سے مطالبات ایسے تھے جن کی بنیاد پر اعتماد سازی ہو سکتی تھی، ان میں بہت برہم نے غور کر لیا تھا، جوڈیشل کمیشن بنانے پر بھی ریڈکراس نہیں لگایا تھا، ہمارے وکلاء کا مشورہ تھا کہ جب معاملات عدالتوں میں ہوں تو اس پر جوڈیشل کمیشن نہیں بن سکتا، انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود ہم نے دوٹوک جواب دینے کی بجائے یہ سوچا تھا کہ ہم یہ جواب دیں گے نہ ہمارے وکلاء کی یہ رائے ہے آپ اپنے وکلاء کو بلالیں جو اپنی رائے دیں ہمیں قائل کریں اور ہم مل کر بیچ کا کوئی راستہ نکال لیں گے عرفان صدیقی نے کہا اعتماد سازی کے حوالے سے بھی ہم نے اور بھی بہت سی چیزوں پر کام کر لیا تھا انہوں نے کہا کہ واحد حل یہ ہے کہ تحریک انصاف آئے اور وزیراعظم سے کہے کہ وہ صدر سے سفارش کریں کہ ان کی سزائیں معاف کر دی جائیں تو شہباز شریف صدر مملکت کو یہ کہہ سکتے ہیں اس کے علاوہ ان لوگوں کی رہائی کا کوئی دوسرا راستہ نہیں،، مسلم لیگ (ن) کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے حکومت اور اپوزیشن مذاکرات ختم اور کمیٹیاں تحلیل کرنے کی تصدیق کر دی ہے ساتھ ہی انہوں نے یہ کہا ہے کہ اگر پی ٹی آئی چاہے تو وزیراعظم سے رابطہ کرے اور مذاکرات کے ذریعے طریقہ کار کے مطابق ریلیف لے سکتی ہے،، وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے پی ٹی آئی کو ایک بار پھر مذاکرات کی پیشکش اس امکان کا اعادہ ہے کہ فریقین مل بیٹھ کر درپیش صورتحال میں بہتری کی راہ نکال سکتے ہیں پی ٹی آئی کی طرف سے جوڈیشل کمیشن کے مطالبے کی تکمیل اس کی طے کردہ تاریخ تک نہ ہونے کو جواز بنا کر جو فیصلہ کیا گیا اس کے بعد بظاہر وہ کاوشیں ضائع ہوتی محسوس ہو رہی ہیں جو پی ٹی آئی اور حکومت کی مذاکراتی ٹیموں کی تشکیل اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے مصالحتی کردار کی صورت میں آگے بڑھ رہی تھیں مگر ایسا سوچنا درست نہیں’ مذاکرات میں رکاوٹیں’ رخنے’ ناکامیاں سامنے آئی ہیں ان سب کا حل مزید مذاکرات ہیں وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت صدق دل سے مذاکرات کیلئے تیار ہے پی ٹی آئی آئے ہم ہائوس کمیٹی کی کارروائی آگے بڑھانے کیلئے تیار ہیں مگر وزیراعظم کی پیشکش کو اپوزیشن نے ٹھکرا دیا جس کے بعد وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اﷲ نے پی ٹی آئی کو مذاکرات کے حوالے سے ڈیڈلائن دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر پی ٹی آئی نے غیر سنجیدگی اختیار کی تو مذاکرات ختم ہو سکتے ہیں اور وہی ہوا مذاکرات ختم ہو چکے کمیٹیاں تحلیل ہو گئیں مذاکرات کے عمل سے یہ امید پیدا ہو چلی کہ اب سیاسی استحکام آئے گا مگر یوں لگتا ہے کہ ابھی سیاسی استحکام دور ہے،، ملکی سیاست میں اس وقت مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں جن کے درمیان کئی سال سے سخت اختلافات اور سیاسی کشیدگی رہی ہے موجودہ سیاسی عدم استحکام اور سنبھلتی ہوئی معیشت اور ملک کی سکیورٹی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر (ن) لیگ اور پی ٹی آئی مذاکرات کامیاب ہو جاتے تو اس کا پاکستان کو بحیثیت مجموعی کیا فائدہ ہو سکتا تھا اور کیا دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات ہوں تو اس کے کامیاب ہونے کے کتنے امکان موجود ہیں کیونکہ سیاسی جماعتوں کے مذاکرات ہمیشہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور مذاکرات کی کامیابی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ دونوں جماعتیں مذاکراتی عمل کے دوران سیز فائر بھی کریں کیونکہ مذاکرات کے کامیاب ہونے کیلئے فریقین کے درمیان جنگ بندی ضروری ہے اگر دونوں جماعتیں سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر مذاکرات کریں تو اس کے کئی مثبت اثرات ہو سکتے ہیں پہلے ہی پاکستان میں سیاسی انتشار کے باعث گورننس کے مسائل بڑھ رہے ہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی بات کو مان کر مذاکرات کی میز پر دوبارہ آ کر بات چیت کے ذریعے اپنے مسائل پر حل کرنے پر توجہ مبذول کرے۔ وزیراعظم نے پی ٹی آئی کو دوبارہ مذاکرات کی دعوت دیکر اچھا قدم اٹھایا اب دیکھنا یہ ہے کہ پی تی آئی اس حوالے سے کیا فیصلہ کرتی ہے اگر پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ اسے مسائل حل ہوں تو اسے وزیراعظم کی پیشکش کو قبول کرنا چاہیے اور مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کرنی چاہیے بصورت دیگر مسائل مزید الجھ سکتے ہیں۔
