14

حکومت پنجاب کی اوپن ڈور پالیسی ٹھس

حکومت پنجاب عوامی فلاح و بہبود کے لیے گزشتہ عرصے میں کئی انقلابی اقدامات کر چکی ہے۔ محکمہ ہیلتھ، پولیس، ریونیو، لائیوسٹاک، فوڈ، پی ایچ اے اور انتظامی ڈھانچے میں ایسی تبدیلیاں متعارف کرائی گئیں جو بظاہر عوام دوست نظر آتی ہیں، مگر عملی طور پر یہ اقدامات عوام کے لیے آسانی کے بجائے مشکلات کا پہاڑ بن چکے ہیں۔ وطنِ عزیز میں ایسی تبدیلیاں اگر نگرانی کے بغیر نافذ ہوں تو فائدہ نہیں بلکہ نقصان بنتی ہیں، اور یہی کچھ آج پنجاب میں ہو رہا ہے۔ہیلتھ اصلاحات سے لے کر پولیس کی تقسیم تک، ریونیو اور نہری نظام میں بے جا مداخلت سے لے کر لائیو سٹاک میں بھاری اخراجا ت تک ہر جگہ کرپشن، بدانتظامی اور اختیارات کے غلط استعما ل نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ بیوروکر یسی کو مزید طاقتور بنانے، انہیں نئی فورسز دینے اور مزید اختیارات فراہم کرنے سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملا بلکہ استحصال بڑھا ہے۔ نئی بنائی گئی ”پیرا فورس” نے دن رات شہر کے بیچوں بیچ طاقت کا ایسا مظاہرہ شروع کر رکھا ہے کہ غریب کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ ناجائز تجاوزا ت کے نام پر جائز کاروبار بھی بند کروا دیے جاتے ہیں۔ ایک غریب چائے والا صبح دکان کھولے تو اس کے سامنے فوڈ اتھارٹی، اے سی، پرائس مجسٹریٹ، محکمہ فوڈ، پروفیشنل ٹیکس، ایکسائز، تحصیلدار، مارکیٹ کمیٹی، ٹریفک پولیس، مقامی پولیس، کارپوریشن، چیف آفیسر، ڈپٹی کمشنر، کمشنر اور سب سے بڑھ کر پیرا فورس سب لائن بنائے کھڑے ملتے ہیں۔ گیس والے، بجلی والے، ایف بی آر اور انکم ٹیکس والے الگ۔ ایک دن میں ایک لاکھ روپے تک جرمانہ، اور اگلے دن وہی تماشا دوبارہ۔ غریب کے لیے تو یہ انقلابی اقدامات موت کے پروانے بن چکے ہیں کمشنر سرگودھا “میٹنگ میٹنگ” کھیل رھے ہیں اوپن ڈور پالیسی پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اوپن ڈور پالیسی کو اولین ترجیح دینے کا حکم دیا تھا، مگر سرگودھا ڈویژن میں یہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہے اگر کمشنر خود اپنے دفتر کا دروازہ عوام کے لیے نہیں کھولتے، عوام صبح سے شام تک قطار میں کھڑی رہتی ہے۔ میٹنگوں سے فارغ ہو کر موصوف اپنی پیرا فورس کے ساتھ بازاروں میں نکل پڑتے ہیں۔ جہاں دکان کے سامنے کرسی نظر آ گئی، فورا حکم: “سیل کر دو!” رات بارہ بجے بھی اچانک پیرا فورس کو بلا کر ہوٹلوں اور باربی کیو پوائنٹس پر دھاواصرف اس لیے کہ چند لوگ بیٹھ کر چائے پی رہے تھے گول چوک بلاک نمبر 1کی جامع مسجد کے سامنے تجاوزات، شربت چوک میں ٹیلی گرام آفس کی گلی پر قبضہ، ریلوے لائن کے ساتھ پختہ تعمیرات، محکمہ انہار کی زمینوں پر مسلسل تجاوزاتسب اپنی جگہ موجود ہیں۔ ان جگہوں کو کوئی نہیں چھیڑتا، کیونکہ یہاں طاقتور لوگ بیٹھے ہیں۔پیرا فورس کا پورا زور صرف غریب دکاندار، چائے والا اور ہوٹل والے پر ہے۔ سرگودھا میں ایک روایت تھی کہ غریب اور سفید پوش شام کے وقت ہوٹلوں پر بیٹھ کر چائے پیتے، گپ شپ کرتے، دن بھر کی تھکن اتارتے ہے اور۔ نہ ان کے پاس آفیسر کلب کی ممبرشپ، نہ شاہانہ بیٹھکوں کی سہولت۔ مگر اب پیرا فورس کے کے خوف سے انبالہ سکول ہو یا بلاک 12اور شربت چوک تک ساری رونقیں مٹا دی ہیں۔ دکانیں سنسان، ہوٹل خالی، کرسیاں ضبط، اور غریب خوف میں مبتلا وہ کمشنر جنہیں سرگودھا آج بھی یاد کرتا ہے محبوب صاحب، قاسم رضوی، تجمل عباس، ندیم محبوب، سعید خان، نوید احسن، را رشید یہ وہ نام ہیں جنہوں نے عوامی محبت، خدمت اور کردار سے اپنا نام تاریخ میں لکھوایا۔ سابق خواتین کمشنرز نے بھی اوپن ڈور پالیسی پر مکمل عمل کیا، عوام سے ملیں، شہر کا دورہ کیا اور میٹنگیں بھی خطا نہ ہونے دیں وقت بہت کم ہے کمشنر سرگودھا اب اگر وہ سرگودھا کے لیے واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو پیرا فورس کا بے جا استعمال ترک کریں تجاوزات ختم کروائیں، شہر کی سڑکیں، گلیاں اور صفائی کا نظام بہتر کریں واحد بڑے ہسپتال کی حالت درست کری سبزی منڈی، بازار، ٹان پلاننگ اور ٹریفک نظام پر توجہ دیں رہائشی ٹانز کی بند رجسٹریاں کھلوائیں ریونیو میں اضافہ کریں سب سے اہم: اوپن ڈور پالیسی پر سختی سے عمل کروائیں ڈی سی، اے سی، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز، میونسپل افسرانسب کو پابند کریں کہ عوام سے روزانہ ملاقات کریں۔ میٹنگیں شام کو رکھیں، دن عوام کے نام کریں گر ایسا ہو جائے تو کمشنر صاحب نہ صرف سرگودھا بلکہ تاریخ میں بھی ایک مثبت باب اور مثال چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں