اسلام آباد (بیوروچیف) عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کے مطالبات کے مطابق بجٹ پر نظر ثانی کرنے کے بعد حکومت کو اشد ضروری بیل آٹ فنڈز حاصل کرنے کے لیے آئندہ چند روز میں عالمی قرض دہندہ ادارے کی جانب سے منظوری کے اعلان کی توقع ہے۔ایک عہدیدار نے کہا کہ آئی ایم ایف کے عملے اور وزارت خزانہ کے درمیان تقریبا تمام اضطرابی مسائل کو ہفتہ کو وزیر خزانہ کی اختتامی بجٹ تقریر سے چند گھنٹے قبل دور کر دیا گیا تھا، ایک عہدیدار نے مزید کہا کہ نویں جائزے کی کامیاب تکمیل کے بارے میں اعلان آئی ایم ایف کا استحقاق ہے اور اب محض رسمی کارروائی ہے۔عہدیدار نے کہا کہ اب یہ آئی ایم ایفمشن پر منحصر ہے کہ وہ ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری اور فنڈز کے اجرا کے لیے حتمی تاریخوں کا تعین کرے، تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ 30 جون تک کے کیلنڈر پر نہیں ہے جب 2019 کے ساڑھے 6 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت کی میعاد ختم ہونے والی ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ ہفتے پیرس میں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے بھی بیک ٹو بیک ملاقاتیں کیں۔ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ پارلیمنٹ میں بحث کے بعد 9 جون کو پیش کیے جانے والے ابتدائی بجٹ میں نمایاں تبدیلی کی گئی ہیں۔انہوں نے کہاکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ پہلی بار ہے کہ پارلیمنٹ نے ایسا بجٹ منظور کیا جس پر اس نے بحث نہیں کی اور پارلیمانی بحث ختم ہونے کے بعد بڑی تبدیلیوں کا اعلان کردیا گیا۔ان تبدیلیوں میں 215 ارب روپے کے اضافی ٹیکس اقدامات، اخراجات میں 85 ارب روپے کی کٹوتی، غیر ملکی زرمبادلہ کی آمد پر ایمنسٹی واپس لینا، درآمدی پابندیوں کا خاتمہ، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مختص رقم میں 16 ارب روپے کا اضافہ اور پیٹرولیم لیوی کو 50 روپے سے بڑھا کر 60 روپے فی لیٹر کرنے کے اختیارات شامل ہیں۔تاہم حکام نے اصرار کیا کہ آئندہ مالی سال کے پہلے روز یعنی یکم جولائی کو پیٹرولیم لیوی میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔درحقیقت حکام کا خیال تھا کہ اس اضافے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی جب تک کہ پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں تیزی سے کمی نہ آئے۔ان کا کہنا تھا کہ حکام اسلامی ترقیاتی بینک سے آئی ایم ایف کے فنڈز آنے تک زرمبادلہ کے کم ذخائر کو برقرار رکھنے کے لیے اس کے پہلے سے اعلان کردہ 4 ارب ڈالر کے پورٹ فولیو میں سے زیادہ سے زیادہ پیشگی ادائیگی کے لیے بات کر رہے ہیں۔آئندہ تعطیلات، نظامی سست روی اور انتظامی تاخیر کی وجہ سے درآمدی پابندیوں کے خاتمے میں بھی کچھ وقت لگے گا۔4 ارب ڈالر سے زیادہ کی درآمدی کنسائنمنٹس کی کلیئرنس کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب 86 کروڑ ڈالر کے زرِمبادلہ درکار ہیں، جس میں مرکزی بینک کی 3 ارب 54 کروڑ ڈالر کی ہولڈنگ بھی شامل ہے۔پاکستان میں آئی ایم ایف کی رہائشی نمائندہ ایستھر پیریز روئیز نے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔9 جون کو بجٹ کے اعلان کے بعد انہوں نے عوامی طور پر بجٹ کے اقدامات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ بجٹ نے ٹیکس کی بنیاد کو زیادہ ترقی پسند انداز میں وسیع کرنے کا موقع گنوا دیا اور نئے ٹیکس اخراجات کی طویل فہرست نے ٹیکس کے نظام کی شفافیت کو مزید کم کر دیا۔ایستھر پیریز روئیز نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم فنڈ پروگرام کی شرائط اور گورننس کے ایجنڈے کے خلاف ہے اور اس سے ایک نقصان دہ نظیر پیدا ہوتی ہے۔ انہوں نے حکومت سے بجٹ کو منظور کرنے سے پہلے اسے بہتر کرنے کا کہا تھا۔پاکستان میں حکام نے کہا کہ اب ان مطالبات کو پورا کرلیا گیا ہے۔
33