34

حکومت کے مالی مسائل میں مسلسل اضافہ

اسلام آباد (بیوروچیف)وفاقی حکومت کے مالی دکھ بڑھتے ہی جارہے ہیں کیونکہ موجودہ مالی سال کے پہلے نوماہ میں نقد آمدن کی رسیدیں قرض کی ادائیگی کے اخراجات کے صرف ایک کھاتے کے لیے بھی پوری نہیں ہوپارہیں ۔ دوسری بات وہ شماریاتی تضادات ہیں جو بہت اوپر چلے گئے ہیں اور9ماہ میں اب2کھرب 6 ارب روپے کا تناقص ہے جسے حکومت اپنے مالیاتی کھاتوں میں طے کرنے میں ناکام رہی۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کیے گئے مارچ اور جولائی کے عرصے کے دوران وزارت خزانہ کے مالی آپریشنز کے مطابق وفاقی حکومت کی مجموعی آمدن کی رسیدیں 91 کھرب روپے کی ہیں جس میں سے 38 کھرب روپے وفاق نے این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو دیے باقی بچے 53 کھرے روپے تاہم حکومت کو جولائی سے مارچ تک کے 9 ماہ کے دوران قرض کی ادائیگی پر 55 کھرب 17 ارب روپے ادا کرنا تھے جس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کی مالیاتی صورتحال بہت زیادہ خراب ہوئی ہے چنانچہ اب سوائے اس کے کوئی آپشن نہیں بچا کہ باقی تمام تراخراجات کو پورا کرنے کے لیے جن میں قومی دفاع، قومی ترقی، زرتلافی ( سبسڈیز، ملازموں کو پنشن کی ادائیگی ، تنخواہوں کی ادائیگی اور حکومت چلانے کے اخراجات کے لیے مزید قرض حاصل کیاجائے ۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ملک بھر میں عوامی سطح پر ترقی کے پروگرام ( پی ایس ڈی پی ) پر پہلے ہی صرف 2 کھرب 70 ارب روپے کی معمولی سی رقم خرچ کی جارہی ہے جبکہ صرف دفاع پر ہونے والے اخراجات ہی 12 کھرب 22 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ مالیاتی آپریشن سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ صرف نوماہ میں ملک کا مجموعی بجٹ خسارہ 40 کھرب روپے کی ہوشربا حد تک پہنچ چکا ہے اور اب یہ جی ڈی پی کے 3.7 فیصد تک پہنچ گیا ہے ۔ قرض کی ادائیگی کواگر تھوڑی دیر کے لیے نکال کر ایک طرف رکھ دیاجائے تو بنیادی توازن 16 کھرب کا سرپلس بچتا ہے ۔ ساری آمدن جو اکٹھی ہوپائی ہے وہ 97 کھرب روپے ہے اور اس میں 72 کھرب روپے کی ٹیکس آمدن بھی شامل ہے ۔ اس میں وفاقی حکومت کی ٹیکس آمدن کا حصہ 67 کھرب روپے ہے جبکہ صوبوں کی ٹیکس آمدن 5 کھرب 50 ارب روپے کی ہے ۔ ٹیکس کے علاوہ حکومت کو جو آمدن ہوئی ہے اس مد میں حکومت نے 7 کھرب 19 ارب روپے کمائے ہیں اور یہ سارے پٹرولیم لیوی سے حاصل ہوئے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں