روہی کی چلچلاتی دھوپ، جسموں کو جھلستی شدید گرم لو، تاحد نگاہ ویرانی ہی ویرانی، کئی قسم کے دل و دماغ میں پنپنے والے وسوسے، طرح طرح کی پریشانیاں، فطرت کی جولانیاں، جرائم پیشہ ذہنوں کی کارستانیاں، نمانے اور نمانیاں اور پھر کیا کیا نہیں۔ درد دل، درد جگر اور ظلم وقہر جب اکٹھے ہوں گے تو انسانیت کے پاس چیخنے چلانے اور آہ و بکا کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں رہ جاتا۔ ایسی صورتحال پر ہی تو اوپر والا بھی مضطرب ہوتا ہے اور پھر فرید کو بھی کمر کس لینے کا حکم دیا جاتا ہے۔ پھر تو آواز اٹھائی جاتی ہے، ہمت بندھائی جاتی ہے۔ طلوع سحر کی امید دلائی جاتی ہے۔ تابناک مستقبل کے خواب دکھائے جاتے ہیں،اتھرو پونچھے جاتے ہیں، چپ توڑدی جاتی ہے اور نوائے شوق سے ہر کس و ناقص کو اپنی طرف متوجہ کیا جاتا ہے۔ زبان کی مٹھاس اور شیرینی سے کانوں میں رس گھولا جاتا ہے، بات کرنے سے پہلے بات کو تولا جاتا ہے اور پھر بہت کچھ بولا جاتا ہے۔ اپنے ہی ہم جنسوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالا جاتا ہے۔ منزل کو گھسیٹ کر پاوں کے نیچے رکھ لیا جاتا ہے اور پھر دریا کنارے ایک کوٹ مٹھن کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔ یہیں سے پیار اور محبت کا پیغام اور وہ بھی سرائیکی جیسی میٹھی زبان میں پہلے پوری روہی کو اور پھر پوری دنیا کو متاثر کرتا ہے پھر تو فرید فرید ہوجاتی ہے۔ یوں جس سفر کا آغاز بابا فرید مسعود نے کیا تھا اس کی تکمیل خواجہ غلام فرید کوٹ مٹھن نے کردی(دل درد کونوں ماندی ناں تھی درد جگر ایویں ہوندین۔۔۔ویسن گزر اصلوں ناں ڈر اوکھے پہر ایویں ہوندن)سلسلہ چشتیہ نے علمی، فکری اور روحانی لحاظ سے برصغیر پاک وہند میں گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ ان کے پیش نظر دنیاوی اقتدار اور حکومت ہر گز نہ تھی تاہم انہوں نے اپنا ایک جاندار کردار ادا کر کے لوگوں کے دلوں پر حکومت کی ہے اور یوں قائم کی ہوئی سلطنتیں آج تک قائم و دائم ہیں اور معاشرے کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ مذکورہ سلسلہ کی ایک کڑی حضرت خواجہ معین الدین اجمیری سے شروع ہوتی ہوئی حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الہی اور حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی تک پہنچتی ہے اور پھر دوسری طرف حضرت خواجہ نور محمد مہاروی سے شروع ہوتی ہے اور یہ سلسلہ حضرت خواجہ غلام فرید کوٹ مٹھن تک آتا ہے۔ اس ساری کہانی میں بڑے بڑے صوفیا نظر آتے ہیں جو اپنے اپنے دور کے لق ودق صحراں میں آکر آباد ہوئے اور جہاں جہاں گئے وہاں وہاں انہوں نے ایک نئی دنیا آباد کردی۔ متلاشیان علم کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا گیا۔ قبائلی جنگوں کے درمیان آکر کھڑے ہوگئے اور لوگوں کی سالوں پرانی دشمنیوں کو پگ وٹائی میں بدل دیا گیا۔ لنگر کے فیض سے بھوکوں اور پیاسوں کی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بھوک اور پیاس ختم کردی گئی۔ بے آباد من کی دنیا میں معرفت کی بین بجا کر ہل چل مچادی اور یوں خانقاہ در خانقاہ قائم ہونے کے سلسلے چل نکلے۔ آنکھ اٹھائی تو سیاہ بخت لوگوں کی تقدیریں بدل کر رکھ دیں گئیں۔ علم وادب کے ان درگاہوں سے شگوفے پھوٹے اور جاگیرداریوں اور بدمعاشیوں کے بت تڑ تڑ ٹوٹنے شروع ہو گئے۔ بدنی اور روحانی مریضوں کا تسلی بخش علاج کیا گیا۔ منبر ومحراب سے مثبت اور قوی پیغام لوگوں تک پہنچا کر خلقت خدا کو ایک جگہ بیٹھنے پر تیار کیا گیا۔ مواخات مدینہ کی فلسفہ پیر بھائی کی صورت میں تجدید کی گئی۔ شعر وسخن کی اس حد تک حوصلہ افزائی کی گئی کہ اجاڑو صوفی شاعر بن گئے۔ گنگنانے والے اپنے اپنے دور کے معروف قوال بلکہ فنکار بن گئے۔ چراغ سے چراغ جلتا گیا اور حضرت انسان تہذیب و تمدن کے خدوخال سنوارنے کے قابل ہوگیا۔ (اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی۔۔ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا) خواجہ غلام فرید 25 نومبر 1845 قصبہ چاچڑاں شریف میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام خدا بخش المعروف محبوب الہی تھا۔ چار سال کی عمر میں والدہ کا انتقال ہوا اور چھ سال کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ نسبی طور پر فاروقی تھے۔ حضرت سیدنا عمر فاروق کی اولاد سے تھے۔ ان کے بزرگوں میں ایک کا نام خواجہ کوربن تھا جس نسبت سے ان کا خاندان کوریجہ کہلایا۔ آپ کے جد امجد حضرت خواجہ محمد عاقل کو خواجہ نور محمد مہاروی نے خلافت عطافرمائی تھی۔ خواجہ غلام فرید اپنے وقت کے نامور عالم فاضل اور مبلغ تھے۔ ہفت زبان شاعر تھے۔ ان کی زیادہ تر شاعری سرائیکی زبان میں ہے اور خصوصا ان کی کافی پوری دنیا میں ان کی پہچان بن گئی۔ موسیقی پر بھی ان کو عبور حاصل تھا۔ عام وخاص سب ان کے گرویدہ تھے۔ نواب صادق آف بہاول پور ان کے مرید بھی تھے اور ان کے مصاحب خاص بھی تھے۔ خواجہ صاحب اپنا آفاقی اصلاحی پیغام دینے میں کسی بڑے چھوٹے میں فرق نہ کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے نواب مذکور کو زیر، زبر اور پیش کی حکمت سمجھا کر زبردست پیغام دیا تھا اور یہ پیغام آنے والے سب حکمرانوں کی عاقبت سنوارنے کے لئے کافی ہے۔ (زیر تھی زبر ناں تھی متاں پیش پوی) ان کی کافی میں وہ درد ہے جو درد دل کی نعمت سے انسان کو مستفید کردیتا ہے(درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔۔ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں ) وہ سلسلہ چشتیہ صابریہ کے بزرگ تھے ان کی بیعت ان کے بڑے بھائی خواجہ فخر جہاں کے ساتھ تھی۔ ان کی شاعری میں توحید وجودی اور ہمہ اوست کا گہرا رنگ ہے۔ ان کے ہاں بھی ہر طرف تو ہی تو کے جلوے نظر آتے ہیں۔ وہ جب کائنات کو آنکھیں کھول کر دیکھتے چلے آتے ہیں تو ایک دن ان کو اپنے اندر بیٹھا یار نظر آجاتا ہے پھر تو بے خودی کی کیفیت اور کیف وسرور۔ استغراق اور وجد اور یوں وجد میں کہی گئی کافی۔ ایسی کافی سن کر عرش اور فرش بھی وجد میں آجاتے ہیں اور فطرت سبحان اللہ سبحان اللہ کی آوازوں سے گونج اٹھتی ہے۔(خلقت کوں جیندھی گول ہے۔۔اوہ ہر دم فرید دے کول ہے) ایسے تو نہ خواجہ غلام فرید کی آواز معاشی، معاشرتی، مذہبی اور سیاسی انقلاب کا باعث بنی۔ اسی آواز کو سننے کے لئے لوگ جوق در جوق ہر سال 5تا 8ربیع الثانی کو کوٹ مٹھن ضلع راجن پور آتے ہیں اور اپنی علمی و روحانی تربیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اہل مزار اور وہ بھی درد رکھنے والا غلام فرید۔ واقفان حال تو بہت کچھ کہتے ہیں اور مجھ جیسے کور ذہن اور کور نظر باتیں کرتے رہ جاتے ہیں۔صوفی باصفا آفاق کی بات کرتا ہے تاکہ مخلوق آفاق کے خالق تک جا پہنچے (وہ مصور کیسا ہو گا جس کی یہ تصویر ہے)۔ لہذا اب ہم سب پر لازم ہے کہ ہم صوفیائے کرام کی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ان کی ترویج واشاعت میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے اس سلسلے کو آگے بڑھائیں جو خواجہ غلام فرید جیسے بزرگان دین نے شروع کیا تھا۔ رسومات اپنی جگہ اہم ہیں لیکن ان خیالات کی روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان کے مطابق اپنی زندگیوں کے سانچوں کو ڈھالنے کی ضرورت ہے ”ماندی ناں تھی” کے لفظ سنا کر آج کی نوجوان نسل کا مورال اپ کیاجا سکتا ہے اور غربت اور بے روزگاری کے ستائے ہوئے لوگوں کو دعوت فکرو ہنر دے کر ان کو ان کے تابناک مستقبل کی نوید سنائی جا سکتی ہے۔
19