73

دھمکی یا مداخلت برداشت نہیں’ سپریم کورٹ (اداریہ)

سپریم کورٹ نے اسلام آباد کے چھ ججز کے خط پر لئے گئے ازخود نوٹس کیس کیلئے فل کورٹ بنچ تشکیل دینے کا عندیہ دیتے ہوئے چیف جسٹس نے واضح کیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا کسی دبائو میں نہیں آئوں گا، ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہو گا عدلیہ کی آزادی پر کسی قسم کا حملہ ہو گا تو سب سے پہلے میں اور میرے ساتھی کھڑے ہوں گے، عدلیہ کے کام میں مداخلت پسند نہیں کرتے اگر کسی کا ایجنڈا ہے کہ میں ایسا کروں یا ویسا کروں تو چیف جسٹس بن جائیں ہم دبائو نہیں لیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ سوشل میڈیا پر عجیب عجیب باتیں سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی کے بارے میں شروع کر دی گئیں مجھے شرمندگی ہو رہی تھی کہ ایک شریف آدمی جسے ہم نے کمیشن کیلئے نامزد کیا تھا اس پر حملے شروع ہو گئے قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں میں نے ہر موقع پر مشاورت کی ہے، ججز کے خط کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں،، یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 8فاضل ججوں کا پائوڈر بھرے مشکوک خطوط موصول ہوئے جس میں ڈرانے دھمکانے کیلئے کیمیکل رکھا گیا تھا چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس کی سماعت کے دوران تصدیق کی کہ ہمیں خط موصول ہوئے ہیں بادی النظر میں یہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو ججز کو ہراساں اور خوفزدہ کر کے اپنے مقاصد کے لیے بلیک میل کرنے کی سازش ہے اس کے پیچھے کون ہو سکتا ہے اسے بے نقاب کرنا ضروری ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط کے ذریعے آگاہ کیا گیا کہ ان کیلئے آزادی سے کام کرنے کے راستے میں کئی ماہ سے رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سات رکنی بنچ تشکیل دیا گیا جس کی طرف سے اس کی پہلی سماعت گزشتہ روز ہوئی، قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے پہلے روز کی سماعت کے خاتمے پر کہا گیا کہ ہو سکتا ہے کہ آئندہ فل کورٹ بنا دیا جائے اور یہ سماعت 29اپریل تک کیلئے ملتوی کر دی گئی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی طرف سے لکھے جانے والے خط کے مندرجات کو دیکھیں تو پاکستان کی عدلیہ کی آزادی ایک سوالیہ نشان نظر آتی ہے اس خط سے عالمی سطح پر کیا پیغام ہو گا؟ بعض عناصر جو بے چہرہ بھی نہیں ہیں دراصل اسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں جس پر خود بھی بیٹھے ہیں انہوں نے جمہوری نظام کو چلنے نہ دینے کی ٹھان لی ہے جبکہ ملک کی معیشت پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں سیاسی اور ادارہ جاتی قیادتوں کو اپنی انائوں اور ذاتی مفادات سے باہر نکل کر کسی مشترکہ حکمت عملی کے تحت ملک کو گرداب سے باہر نکالنا چاہیے ورنہ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا،، عدلیہ کو دھمکی آمیز خطوط ملنا افسوسناک ہے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اس حوالے سے فل کورٹ بنانے کا عندیہ دیا ہے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ آہنی عزائم رکھنے والے ہیں آٹھ فروری کے انتخابات کا اعلان کیا تو یہ بھی کہا کہ آٹھ فروری کے انتخابات پتھر پر لکیر ہیں اس پر کسی قسم کی میڈیا پر بات نہیں ہو گی اس کے باوجود کچھ لوگوں کی طرف سے الیکشن کو مؤخر کرانے کی کوشش کی گئی جلوس نکالے گئے کچھ لوگ تو سینیٹ میں قرار داد لانے اور اسے منظور کرانے میں بھی کامیاب ہو گئے تھے ایک نگران گورنر بھی انتخابات کو مؤخر کرانے کی کوشش کرنے والوں کا ساتھ دیتے نظر آئے جیسا سپریم کورٹ کی طرف سے واضح کیا گیا تھا کہ آٹھ فروری کو ہر صورت انتخابات ہوں گے اور اس روز الیکشن کمیشن اور صدر کی جانب سے دیئے گئے شیڈول کے مطابق انتخابات ہو گئے بعدازاں انتخابی نتائج کو بھی متنازع بنانے کی کوشش کی گئیں،، اب ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا گیا جس کی وجہ سے ایک بار پھر عوام میں بے چینی کی فضاء جنم لے رہی ہے عدلیہ کو دھمکی اور مداخلت کی کوشش کی جا رہی ہیں جن کا روکنا ضروری ہے چیف جسٹس آف پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی پر حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا جس کے بعد یہ امید بندھ چلی ہے عدلیہ کو دھمکیاں دینے اور عدلیہ کے کاموں میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف ملک کے آئین وقانون کے مطابق فیصلہ کریں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں