31

زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

جب کوئی اپدیشک ہوتا ہے تو وہ ہر کسی کو باتوں سے موہ لیتا ہے۔ اپدیشک کی بھی ایک ہی قسم نہیں ہوتی ہے اور من کی اور تن کی بات میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ یقینا باتوں باتوں میں بڑا ہی فرق ہوتا ہے۔ اس فرق کو ختم کرنے کے لئے بات کرنے والے کی کپیسٹی بلڈنگ کی ضرورت ہے اور اہلیت کا تعلق جید اساتذہ، وسیع مطالعہ اور سیرو سیا حت سے ہوتا ہے اس کے علاوہ بھی کئی عوامل ہیں ان عوامل کا قاری کو شعور ہونا چاہیئے اور اب قاری کو سوچنے پر مجبور کرنے کی بہت ہی ضرورت ہے۔ بات تو باتوں سے موہ لینے کی تھی۔ جو شخص پہلے اپنے پاس باتوں کا ذخیرہ کرتا ہے اور پھر ان باتوں کو صائب طریقے سے سامعین تک پہنچاتا ہے۔ اس سارے کام کو ابلاغ کہتے ہیں۔ تبلیغ، مبلغ اور ابلاغ کا ایک ہی مادہ ہے اور قرآن مجید کہتا ہے۔ وما علینا الا البلاغ المبین۔ واضح اور مبہم میں بڑا فرق ہوتا ہے واضح کے نتیجے میں ماتھے اور دل دونوں کی آنکھیں کھلتی ہیں اور ابہام کی صورت میں دل کی آنکھ کی صحت پر تو بالکل ہی کوئی اثر نہیں ہوتا ہے البتہ ماتھے کی آنکھوں میں بھی دھندلا پن آجاتا ہے۔ دماغ بھی ایک اہم چیز ہے جس کا کام ہی سوچ، فکر، تدبر اور احتیاج ہے اور اس کی خوراک بھی باتیں ہیں اسی لئے مفکر اور مدبر کا سکوپ آف ورک مجھ جیسے تن کا علم حاصل کرنے والوں سے بہت مختلف ہے۔ اختلاف رائے کی تو بہرحال ہر حالت میں گنجائش ہوتی ہے لیکن اختلاف کی صورت میں “ہل مارنے” اور ہڑبونگ کی کسی بھی اخلاقیات کی کتاب میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آج کے پرآشوب اور پر فتن دور میں ہم سب تدبر اور تفکر کے لفظوں سے تو واقف ہیں پر ان کی نوعیت اور حیثیت کو جاننے کی ہم نے کبھی زحمت ہی نہیں کی ہے۔ ویسے تو دنیا میں مفکرین اور مدبرین کی تعداد کا تعین کرنا ناممکن ہے تاہم کچھ ایسے نابغہ روزگار لوگ ہوئے ہیں جن سے ہم سب واقف ہیں۔ کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔برصغیر پاک وہند میں علامہ محمد اقبال کے نام سے کون واقف نہیں ہے۔ نام کام سے بنتا ہے کاش ہم ان کے کام کے کوانٹم اور حجم سے واقف ہو جاتے تو کم از کم احساس ذمہ داری کا مظاہرہ ضرور کرتے۔ بچپن میں راقم الحروف جب سکول جاتا تھا تو سب سے پہلے جو کام ہم سب کو کرنا پڑتا تھا وہ یہ تھا کہ ہم سب طالب علم اکٹھے ہو کر ایک دعا مانگا کرتے تھے اور یہ دعا بھی ترنم سے پڑھی جاتی تھی۔ شاید میرے کلاس فیلو اس دعا کے مطالب و معانی سے واقف ہوں کم از کم مجھے تو کچھ معلوم نہیں تھا میرے نزدیک یہ ایک کام ہر طالب علم کو بہرصورت کرنا تھا۔ میں سکول سے کالج میں آیا اور پھر یونیورسٹی کے بعد ملازمت کرتا رہا کئی سال بعد ایک دن ایک شخص نے بیٹھے بیٹھے متذکرہ بالا دعا گنگنا دی اور جیسے ہی میرے کانوں پر وہ آواز پڑی گویا کہ”جاگ پئیاں سب پیڑاں” پرانی یادیں اور ان یادوں میں کئی سال کی تاریخ اور تاریخ کے جھروکوں میں دیکھنے سے ہی چودہ طبق روشن ہوتے ہیں ” کیا کھویا کیا پایا” اس روز سے آج تک میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کاش مذکورہ دعا کو میں سمجھ کر پڑھتا تو اللہ تعالی اس میں اثر ڈال دیتے اور میں خود بھی اس دعا کی تاثیر کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا اور یقینا میں غریبوں کی خدمت کرتا۔ درد مندوں اور ضعیفوں سے محبت کرتا۔ اپنی زندگی کو مثل شمع بنا کر اردگرد کے اندھیروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیتا۔ برائی اور اچھائی کا مجھ میں احساس پیدا ہو جاتا اور میں برائی کے راہ سے بچنے کی اور نیک راہ پر چلنے کی پوری پوری کوشش کرتا۔ میں اپنے وطن کو مثل چمن سمجھتا اور اپنے آپ کو پھول سمجھ کر اس پاک سر زمین کی زینت کا باعث بنتا۔ میں علم کو شمع سمجھتا اور پروانہ بن کر اس کے چاروں اطراف گھومتا پھرتا رہتا۔ اتنی ساری دعائیں اور اتنی ساری خواہشات بلکہ اتنے سارے خواب اور یہ سارا کچھ ہوجانے کی صورت میں ہمارا دیس جنت نظیر بلکہ دنیا کے نقشے پر بے نظیر ہوتا۔ کاش ہمیں پڑھانے سے پہلے پڑھنے پڑھانے کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں بتا دیا جائے تو ہم چیزیں طوطے کی طرح رٹنے کی بجائے سمجھیں گے اور پھر ان باتوں پر سنجیدگی سے عمل کریں گے اور عمل سے اپنی زندگی کو سہل اور آسان بنا لیں گے۔ علامہ محمد اقبال کی شاعری اور ہمارا ذوق شوق دیدنی۔ ہر محفل، ہر مجلس، ہر تقریب، ہر مکالمہ، ہر سٹیج، ہر مسجد محراب و منبر بلکہ ہر ہر تھاں اقبال کے اشعار اور پھر سبحان اللہ سبحان اللہ اور فلک شگاف نعرے جن کی گونج عرش تک جاتی ہے۔ حالانکہ کاش ان شعروں کی تفہیم دل اور دماغ تک پہنچ جاتی تو امت مسلمہ اوج ثریا تک پہنچ جاتی آج ہماری نوجوان نسل یعنی یوتھ، ہمارا مستقبل اور ہمارا آنے والا کل۔ بیروزگاری، غیر یقینی صورتحال، ہیجان کی کیفیت، حساسیت، بے چینی، ذہنی دبائو، ڈپریشن، جنون اور پھر سوشل میڈیا کا سب کو اندر ہی اندر کڑھنے پر مجبور کرنا۔ کاش یہی نوجوان نسل سوشل ہو جاتی یا پھر گلوبلائزیشن کی دنیا کا اثر قبول کرتی اور حرکت میں برکت کے بیانیہ پر عمل کرتی۔ افسوس ایسا نہیں ہوسکا ہے۔ دوش دوش اور دوش۔ حالانکہ ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ آج بھی “علامہ محمد اقبال اور آج کے نوجوان” کے موضوع پر ساری قوم کو درس دینے کی ضرورت ہے۔ آج بھی نونہالان قوم کو بتانے کی ضرورت ہے (کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے۔۔۔وہ کیا گردوں تھا جس کا ہے تو اک ٹوٹا ہو تارا) آج بھی کچھ یوں اپنے اپنے بچوں کو دعوت فکر دی جاتی سکتی ہے(تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی۔۔۔کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارہ) آج بھی مایوسی اور غیر یقینی صورتحال کے خاتمے کے لئے ان کو یہ بتایا جا سکتا ہے کہ (کوئی بھی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں ۔۔۔۔ڈھونڈھنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں)دنیا میں مختلف جگہوں پر امت مسلمہ پر ڈھائے جانے والے مظالم اور نوجوان نسل کی تربیت یہ بتا کر کی جا سکتی ہے(اگر تورانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے۔۔۔کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا)آج بھی ان صاحبان کو کچھ یوں تابناک مستقبل کی آس اور امید دلائی جا سکتی ہے(اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے۔ ۔ ۔ مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے)۔ اس سے بھی بڑ کر اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ کلام اقبال اور یوتھ کا درمیانی فاصلہ ختم کردیا جائے اور ان کو مذکورہ کلام کے ایک ایک لفظ کا شعوری احساس دلا دیا جائے تو آج بھی یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔ آج بھی آو ہم سب اکٹھے ہو جائیں اور سب مل کر خدا کے حضور دست بستہ عرض کریں (لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ۔ ۔۔ زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں