50

سائفر کیس’عمران خان کا ٹرائل جیل میں کرنیکا حکم

اسلام آباد(بیوروچیف)آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی’شاہ محمود قریشی کا ٹرائل جیل میں ہوگا۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر، ایف آئی اے پراسیکیوٹر شاہ خاور اور ذوالفقار عباس عدالت میں پیش ہوئے، چیئرمین پی ٹی آئی کی بہنیں اور شاہ محمود قریشی کی بیٹی بھی عدالت پہنچیں۔وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ آج دو مختلف معاملات عدالت میں ہیں، امید تھی چیئرمین پی ٹی آئی کو پیش کریں گے لیکن نہیں کیا گیا، یہ ریکارڈ کیس ہے اتنی رفتار سے کبھی کیس نہیں چلا ۔اس دوران جج ابوالحسنات نے عدالتی عملے کو کیس کا ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کی۔دوران سماعت جیل حکام نے چیئرمین پی ٹی آئی کی عدالت میں پیشی سے متعلق رپورٹ پیش کی جس کا جج نے جائزہ لیا اور کہا کہ جیل حکام کا کہنا ہے کہ چیئرمین کو پیش نہیں کرسکتے، اسلام آباد پولیس کو اضافی سکیورٹی کیلئے خط لکھا اور بتایا گیا چیئرمین پی ٹی آئی کو سکیورٹی خدشات ہیں۔سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے اسلام آباد پولیس کی رپورٹ بھی جیل رپورٹ کیساتھ منسلک کی ہے۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ملزم کو عدالت کے سامنے پیش کرنا جیل حکام کی ذمہ داری ہے، جیل حکام ملزم کو عدالت کے سامنے پیش کرنا نظر انداز نہیں کر سکتے، جیل سماعت کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے کالعدم قرار دے دیا ہے۔سلمان صفدر نے مزید کہا کہ یہ جیسے بھی کریں انکو آج چیرمین پی ٹی آئی کو پیش کرنا ہوگا، کس انٹیلیجنس ایجنسی کی بنا پر یہ کہ رہے کہ انکی جان کو خطرہ ہے، جب ہم کہتے تھے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے تو کہتے تھے کہ جیسے بھی ہو پہنچیں، جیل سے عدالت تک کے سفر میں کوئی رکاوٹ ہے تو وہ بتا دیں۔سلمان صفدر نے استدعا کی کہ اگر سکیورٹی تھریٹ ہیں تو اس کیس پر سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی جائے، جیل میں کیس نہیں چل سکتا تو یہاں بھی یہ چلانا نہیں چاہ رہے تو ملزمان کو ضمانت دے دی جائے۔انہوں نے استفسار کیا کہ یہ ٹرائل کہاں چل سکتا ہے یہ بتا دیں؟ یہ ٹرائل یہاں پر نہیں چل سکتا اور نہ جیل میں چل سکتا ہے تو پھر کہا چل سکتا ہے؟دریں اثنا شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے اپنے دلائل کا آغاز کیا، انہوں نے کہا کہ جیل سپرینڈنٹ کا لیٹر ایف آئی اے پراسیکوٹر شاہ خاور نے خود پڑھا ہے، شاہ محمود قریشی کو کیوں ابھی تک پیش نہیں کیا گیا؟علی بخاری نے شاہ محمود قریشی کو عدالت میں پیش کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ یہ اوپن ٹرائل ہے ملزم کو عدالت میں پیش کرنا ضروری ہے، ملزم کو عدالت میں پیش کرنا قانونی ذمہ داری ہے، ملزمان کی پروڈکشن کروانا عدالت کی ذمہ داری ہے، اگر عدالتی احکامات نہیں مانیجاتے تو سرکاری ملازم کو جیل میں بھیجنے کا اختیار آپ کے پاس ہے۔شاہ محمود قریشی کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد جج ابولحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ عدالت مناسب آرڈر کرے گی، کیا عدالت نے ملزمان کو طلب کیا تھا؟ ایف آئی اے پراسکیوٹر نے جواب دیا کہ آپ نے ملزمان کو طلب کیا تھا۔ایف آئی اے پراسکیوٹر نے کہا کہ تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے جیل میں ٹرائل کیا جاسکتا ہے، عدالت میں جیل حکام دستاویزی شواہد کے ساتھ بتایا کہ سیکیورٹی خدشات کی بنیاد پر پیش نہیں کرسکتے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس عدالت کی کارروائی کو غیر قانونی قرار نہیں دیا، عدالت نے فیصلہ کرنا ہے کہ جیل میں ٹرائل ہوگا یہاں پر، آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ جیل ٹرائل کی صورت میں کتنے لوگ عدالت میں آسکتے ہیں۔جج ابولحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو فرق نہیں پڑتا کہاں ٹرائل ہوگا، عدالت چاہتی ہے کہ جو ٹرائل کو دیکھنا چاہے اس کے لیے کیا کریں گے، سیکشن 352 کا اطلاق کرنا ہے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے استفسار کیا کہ یہاں کون سا ایسا واقعہ ہوا جس سے کہیں کوئی تھریٹ ہے، روزانہ اڈیالہ جیل سے دہشتگردوں کو لایا جاتا ہے، اب یا تو پیش کیا جائے یا ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔ایف آئی اے پراسکیوٹر اسکندر ذوالقرنین سلیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر عمل نہ ہونے پر متعلقہ آئی جی کو طلب کیا جانا چاہیے، ایف آئی اے پراسکیوٹر کا کام نہیں ہے کہ وضاحتیں دیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور جیل سپرٹنڈنٹ کے درمیان خط و کتابت سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔دریں اثنا عدالت نے فریقین کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا، جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ اس حوالے سے آرڈر پاس کروں گا۔واضح رہے کہ عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو پیش کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں