47

سائفر کیس میں قصور وار قرار

لندن/ اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک، بیوروچیف) پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی کے معاملے میں حکومت چاہتی ہے کہ قانون اپنا راستہ اختیار کرے اور سابق وزیر اعظم کی ممکنہ گرفتاری اور جیل بھیجنے کے بارے میں حکومت نے وزارت قانون سے رائے بھی طلب کی ہے۔ انوار الحق کاکڑ کاکہنا تھا کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا مقابلہ فوج سے نہیں بلکہ ریاست سے ہے۔ نگران وزیر اعظم نے کہا کہ انھوں نے وزارت قانون سے اس بارے میں رائے لی ہے کہ جب نواز شریف واپس آئیں گے تو قانون کے مطابق(ان کے تئیں)نگراں حکومت کا انتظامی رویہ کیا ہونا چاہیے۔میں نے وزارتِ قانون سے اقوام متحدہ آنے سے پہلے پوچھا تھا۔ اس وقت تک یقینی بات نہیں تھی کہ میاں صاحب کب تشریف لائیں گے لیکن اب وطن پہنچ کر(اس ضمن میں)ایک اجلاس طلب کیا جائے گا۔ نگران وزیراعظم نے برطانوی ادارے بی بی سی کو انٹرویودیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ میں نے عمران خان کی سزا کے بارے میں جو اشارتا بات کی اس کا مقصد یہ تھا کہ عدالتی نظام میں جتنے بھی مواقع ہیں اگر انھیں استعمال کرنے کے بعد بھی قوانین کے تحت انھیں الیکشن سے روکا گیا، تو یہ ہمارے مینڈیٹ سے باہر ہو گا کہ ہم انھیں کوئی ریلیف دے سکیں۔ قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے گا۔نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اگر عدالتوں سے کوئی ریلیف نہ ملا تو پھر بدقسمتی سے عمران خان کو ان نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا موجودہ تناظر میں وہ ملکی ماحول کو عمران خان اور فوج کے مقابلے کے طور پر دیکھتے ہیں تو انھوں نے زور دے کر کہا کہ نہیں، میں عمران خان بمقابلہ ریاست دیکھ رہا ہوں۔نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے کہا کہ ان کے معاملے میں بھی ہم چاہیں گے کہ قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے، آپ کو یاد ہو گا کہ وہ ایک عدالتی حکمنامے کے ساتھ ملک سے باہر گئے تھے۔ نواز شریف کے معاملے کے دو پہلو ہیں، ایک تو سیاسی ہے تاہم اس بحث میں جائے بغیر، اگر مروجہ قوانین کے تحت دیکھا جائے تو یہ فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے۔ ایک سزا یافتہ شخص کو عدالتوں نے اجازت دی تھی، ایگزیکٹیو نے نہیں دی تھی۔ تو یہ سوال عدالتوں کے پاس ہے ایگزیکٹیو کے پاس نہیں ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ نواز شریف ایک سزا یافتہ شخص ہیں تو انوارالحق کاکڑ نے کہا میں تسلیم کروں یا نہ کروں جب ایک شخص کو اعلی عدالتوں نے غلط یا صحیح طریقے سے سزا سنا دی ہے تو میرے کہنے سے نہ وہ سزا ختم ہو سکتی ہے نہ بڑھ سکتی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نواز شریف کے خلاف جو فیصلہ آیا تھا وہ ایک فردِ واحد کے خلاف فیصلہ تھا۔ جس پر کچھ نے شادیانے بجائے لیکن اسی سیاسی شخص کی جماعت نے اگلے انتخابات میں 90 کے قریب نشستیں بھی حاصل کی تھیں۔ نگران وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ قطعا کوئی سختی نہیں برتی جائے گی۔ ہاں ان لوگوں کے ساتھ قانون کے مطابق ضرور نمٹا جائے گا جو منفی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں اور وہ مخصوص افراد ہیں جو پچیس کروڑ کی آبادی میں پندرہ سو، دو ہزار بنتے ہوں گے، ان کو پاکستان تحریک انصاف سے جوڑنا کوئی منصفانہ تجزیہ نہیں ہو گا۔انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ تحریک انصاف کے خلاف ہونے والی کارروائی کا جنرل ضیا کے زمانے میں پیپلز پارٹی کے خلاف ہونے والی کارروائی یا جنرل مشرف کے زمانے میں مسلم لیگ کے خلاف ہونے والی کارروائی سے موازنہ کرنا ایک بیہودہ تجزیہ اور غلط بات ہو گی۔اگر آپ ایک سویلین نگران حکومت کا فوجی جنتا سے موازنہ کریں گے تو یہ زیادتی ہو گی۔ کیا پاکستان میں اِس وقت ملٹری ٹیک اوور ہوا ہے؟ کیا آئین معطل ہے؟ عدالتیں کام کر رہی ہیں جبکہ بنیادی حقوق موجود ہیں۔انھوں نے کہا کہ جنرل ضیاالحق کا ملٹری ٹیک اوور اور پیپلز پارٹی پر کریک ڈان، یا مشرف کا نواز شریف یا ن لیگ پر کریک ڈائون اور آج کے کریک ڈان کا موازنہ بیہودہ اور غلط ہو گا۔ یہ شاید غیر مناسب ہو گا۔انوار الحق کاکڑ نے واضح کیا کہ اگر کوئی ایک سیاسی رہنما انتخابات میں حصہ نہیں لے پاتا تو اس سے بحران پیدا ہو یا نہ ہو، یہ نگراں حکومت کا مسئلہ نہیں کیونکہ ہمارا مقصد بحران روکنا یا پیدا کرنا نہیں، قانون کے تحت ہمارا کردار الیکشن کروانا ہے۔ اگر الیکشن کے نتیجے میں بحران پیدا ہوتا ہے تو یہ پورے معاشرے اور ریاست کا معاملہ ہے، نگراں حکومت کا نہیں۔ انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ یہ معاملہ بنیادی طور پر الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔جہاں آئین میں نوے دن کی مدت ہے وہیں 254 آرٹیکل میں بھی یہ درج ہے کہ کوئی چیز اگر وقت کے اندر نہیں ہوتی تو وہ محض تاخیر ہونے سے غیر آئینی اور غیر قانونی نہیں ہو جاتی۔ نگران وزیر اعظم نے بی ایل اے جیسی عسکریت پسند تنظیموں کو دہشتگرد اور انڈین پراکسیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے فوجی اور عام شہریوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا، ان سے نمٹنے کے طریقوں پر پارلیمان میں یا میڈیا میں کوئی مباحثہ نہیں ہوا یعنی کوئی دو رائے نہیں۔لاپتہ افراد کے بارے میں انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے میعار کے مطابق بلوچستان میں جبری طور پر غائب ہو جانے والے افراد کی تعداد 50 کے قریب آ رہی ہے جبکہ انڈیا کے زیر قبضہ کشمیر میں یہ تعداد 8000 ہے۔وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ نے نجکاری کے بارے میںجواب دیتے ہوئے کہا کہ پچھلی پارلیمان جاتے ہوئے ایسی قانون سازی کر گئی تھی جس میں نگراں حکومت کو طویل مدت کے لیے سخت معاشی فیصلے کرنے کا اختیار دیا گیا۔تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایسی صورت میں اسی جواز کے تحت یہ ممکن ہے کہ نگراں حکومت خود طویل مدت تک برقرار ہے، تو انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ مجھے تو ایسے امکان نظر نہیں آ رہے، جو امکان نظر آ رہا ہے وہ الیکشن کا نظر آ رہا ہے اور میرے خیال میں تمام جماعتیں الیکشن کی کیفیت میں چلی گئی ہیں۔ آئندہ چند ہفتوں میں الیکشن کی گہما گہمی نظر آئے گی۔ علاوہ ازیں ایف آئی اے نے سائفر کیس میں چالان آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت میں جمع کروا دیا، جس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو قصوروار قرار دیا گیا ہے۔وفاقی تحقیقاتی ادارے نے عدالت سے چیئرمین پی ٹی آئی و سابق وزیراعظم عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو ٹرائل کرکے سزا دینے کی استدعا کی ہے۔ذرائع کے مطابق اسد عمر کو ایف آئی اے نے ملزمان کی فہرست میں شامل نہیں کیا جب کہ سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ایف آئی اے کے مضبوط گواہ بن گئے ہیں، ان کا 161 اور 164 کا بیان چالان کے ساتھ منسلک ہے۔ذرائع کے مطابق چالان میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر اپنے پاس رکھا اور اسٹیٹ سیکرٹ کا غلط استعمال کیا ۔ سائفر کاپی چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس پہنچی لیکن واپس نہیں کی گئی ۔ شاہ محمود قریشی نے 27 مارچ کی تقریر کی، پھر چیئرمین پی ٹی آئی کی معاونت کی ۔چالان میں مزید کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی 27 مارچ کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ سی ڈی منسلک ہے۔ ایف آئی اے نے 28 گواہوں کی فہرست چالان کے ساتھ عدالت میں جمع کرا دی ۔ 27 گواہوں کے 161 کے بیانات قلمبند ہونے کے بعد چالان کے ساتھ منسلک کیے گئے ہیں۔خصوصی عدالت میں جمع کروائے گئے چالان کے مطابق سیکرٹری خارجہ اسد مجید اور سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود بھی گواہوں میں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ فیصل نیاز ترمزی بھی ایف آئی اے کے گواہوں میں شامل ہیں۔ سائفر وزارت خارجہ سے لے کر وزیراعظم کے پاس پہنچنے تک پوری چین کو گواہوں میں شامل کیا گیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سائفر کیس میں چالان کی نقول آئندہ سماعت پر چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو فراہم کیے جانے کا بھی امکان ہے، جس کے بعد فرد جرم کی تاریخ مقرر کی جائے گی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف وعدہ معاف گواہ اعظم خان کا 164 کے بیان کی کاپی عدالت میں جمع کروائی گئی ہے۔اعظم خان کے بیان کی کاپی فراہم کی جائے گی یا وکلا کو صرف پڑھنے کی اجازت ہوگی، یہ عدالت کا اختیار ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں