اس بات میں کچھ شک نہیں کہ زمانہ بہت تیز رفتار’ ٹیکنالوجی جدید ترین’ مگر معاشرہ میں اصولوں کی پاسداری کا خیال نہیں رکھا جا رہا جس کی وجہ سے قوم اخلاقی گروٹ کا شکار ہے آزادی رائے کا حق ایک خاص ذمہ داری کا نام ہے جس میں سماج’ ثقافت’ روایت اور مذہب کے چند واضح کردہ ضوابط ہر کسی کو اپنانے پڑتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس کا خیال نہیں رکھا جاتا اور ہر کوئی سوشل میڈیا کا غیر ضروری طور پر بہت زیادہ استعمال کر رہا ہے سوشل میڈیا صارفین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کرے اور کوئی اسے پوچھنے والا نہ ہو گھر میں چاہے جتنے بھی افراد کسی ایک جگہ پر جمع ہوں تو بچے بڑے سب ایک دوسرے سے باتیں کرنے کے بجائے اپنے اپنے موبائل فون میں اس طرح کھوئے رہتے ہیں جیسے وہ اس جگہ پر تنہا ہوں! جو لمحہ فکریہ ہے اگر یوں کہا جائے کہ ہماری زندگی میں سوشل میڈیا اب جزولاینفک کی حیثیت اختیار کر چکا ہے تو غلط نہ ہو گا درحقیقت سوشل میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے پوری دنیا ایک برقی صفحے میں سمٹ گئی ہے نفسانفسی کے عالم میں وقت جس برق رفتاری سے گزر رہا ہے ایسے میں اپنوں سے باخبر رہنے کیلئے سوشل میڈیا ایک سہل منبع ہے بہت زیادہ پیچھے کی جانب نہ جائیں، صرف 45برس پہلے جب مواصلات کا کوئی مخصوص ذریعہ نہیں تھا کسی عزیز کو انتہائی ضروری پیغام پہنچانے کیلئے قاصد سے کام لیا جاتا تھا مگر اب تو سوشل میڈیا کا زمانہ تھا پیغام رسائی منٹوں سکینڈوں میں ممکن ہے مگر تعجب کی بات ہے کہ ایک ساتھ ایک گھر میں رہنے والوں کو اس جدید نظام نے اتنا دور کر دیا ہے کہ ہم پاس رہ کر بھی دور ہو گئے ہیں والدین کو بچوں کی تربیت انکی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو منانے کے علاوہ تفریح کا ٹائم میسر نہیں جس سے بچوں کی نشوونما ہوتی ہے نوجوان نسل والدین کی خدمت گزاری کے بجائے اپنے قیمتی لمحات سوشل میڈیا کی نذر کر رہے ہیں موبائیل ڈیوائس کی صورت میں ہمارے ہاتھوں میں ایک دنیا آباد ہے ایک لمحے میں کسی ملک اور دوسرے لمحے میں کسی اور سرزمین کا رُخ کرنا مشکل نہیں رہا اکثر اوقات یہ فیصلہ کرنا کٹھن ہو جاتا ہے کہ کدھر کلک کیا جائے سیاسی’ مذہبی’ معاشی’ معاشرتی مسائل پر اپنے نقطہ نظر کا کھل کر اظہار کرنے والوں نے ملک میں ایک ایسا طوفان بدتمیزی برپا کر دیا ہے جس نے ملک کو بہت نقصان سے دوچار کیا ہے ملک میں ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں نے ملک کے اہم ترین اداروں کو دنیا بھر میں بدنام کرنے میں بھی بازی لے جانے کی کوشش کیں جو نہ صرف افسوسناک بلکہ اس سیاسی جماعت کی قیادت کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہونی چاہیے تھی مگر بجائے سوشل میڈیا پر ایسے پوسٹوں کو شیئر کرنے یا لگانے والوں کو قاعدہ’ ضابطہ’ اصول کا پابند کیا جاتا مذکورہ سیاسی جماعت نے اپنے سوشل میڈیا صارفین کو ہلہ شیری دیئے رکھی سماجی رابطوں کی دنیا تخلیق کرنے والوں نے اس میڈیا کے منفی استعمال پر اگر غور کیا ہوتا تو وہ یقینا اس بارے پہلے ہی اصول بنا کر ان کی تشہیر کر دیتے مگر اب تو تیر کمان سے نکل چکا ہے تاہم پاکستان حکومت نے سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے منفی استعمال کو روکنے کیلئے قانونی طور پر اقدامات کئے ہیں تاکہ سوشل میڈیا پر قومی اداروں کے خلاف کی جانے والی مہم پر قابو پایا جا سکے سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی کا ایسا مظاہرہ کیا جاتا ہے جس میں تہذیب نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی سوشل میڈیا صارفین کو اس حوالے سے غور کرنا چاہیے اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرنا چاہیے فیک اکائونٹس بنا کر لوگوں سے پیسے مانگنا ایک شغل بن چکا ہے سیاسی کارکن ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالتے ہوئے نہ جانے کتنی آڈیوز اور ویڈیوز لیک کر رہے ہیں جس کا براہ راست اثر نئی نسل پر پڑتا ہے نئی نسل کو سوشل میڈیا کا فائدہ تعلیم کے حوالے سے اٹھانا چاہیے سوشل میڈیا پر جذبات واحساسات کے حوالے سے ہمیں راہنمائی کی ضرورت ہے اظہار رائے ہو ضرور مگر اخلاقیات سے گرا ہوا نہیں ہونا چاہیے۔
2