8

سیاسی احتجاج کے بجائے استحکام ضروری (اداریہ)

وطن عزیز میں سیاسی عدم استحکام نے اسکی ترقی وخوشحالی کو بہت متاثر کیا ہے اسمبلیوں کی موجودگی میں سڑکوں پر دھرنے’ احتجاج’ ریلیاں حکومت مخالف نعرے بازی سوشل میڈیا پر ایسے مناظر دکھانا جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا بیرون ملک میں سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کرتا ہے سیاسی احتجاج ملکی ترقی کے راستے کی بڑی رکاوٹ ہے پی ٹی آئی نے تو احتجاج کو گھر کی لونڈی سمجھ رکھا ہے جب دل کرتا ہے یہ جماعت احتجاج کی کال دے دیتی ہے کارکنان حکم کی تعمیل کیلئے دوڑ پڑتے ہیں وزارت خزانہ کے مطابق صرف ایک یوم میں اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے جس کے ہم متحمل نہیں گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کی فائنل کال احتجاج کے بعد سیاسی جماعتوں کی سطح پر بیان بازی ہو رہی ہے سیاست دانوں کے طعنے اور طنزیہ جملوں نے ماحول کو کشیدہ کر رکھا ہے بدقسمتی سے ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ ہمیں احتجاج کے پیچھے بھاگنا ہے یا پھر استحکام کی طرف جانا ہے، کاش کہ سیاسی قیادت اس بارے قوم کی راہنمائی کرے کہ احتجاج ضروری ہے یا ملکی ترقی واستحکام ناگزیر ہے گزشتہ دنوں پشاور سے اسلام آباد تک احتجاج کی وجہ سے دنیا کو مختلف مناظر دیکھنے کو ملے یقینا یہ اچھے مناظر نہیں تھے سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے ورکرز نے بہت شور مچایا ویڈیوز وائرل کیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے اسلام آباد کے ڈی چوک میں پی ٹی آئی ورکرز کی ہلاکتوں کا بڑا چرچا کیا گیا مگر اس حوالے سے ان کے پاس کوئی ٹھوس ہی موجود نہیں اور صرف پراپیگنڈہ کیا گیا ہمارے ہاں کی سیاست دنیا کی سیاست سے الگ ہے دنیا کے ہر ملک میں سیاسی طور پر مزاحمت ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں کی سیاسی مزاحمت جس حد تک چلی جاتی ہے ایسا کسی بھی ملک میں نہیں دیکھا گیا، جب ہم اندرونی طور پر معاشی وسیاسی عدم استحکام کی بات کرتے ہیں تو پھر یہ تکلیف دہ پہلو ہے، ہر سیاسی پارٹی ہر وقت حکومتی مخالف کی وجہ سے کچھ غیر معمولی کام کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے اگر کوئی بین الاقوامی مسئلہ نہیں ہے، کوئی مذہبی معاملہ نہیں ہے، کوئی قومی مسئلہ نہیں ہے تو پھر کیوں احتجاج کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے، ہماری معیشت ہچکولے کھا رہی ہے مگر اپوزیشن کو احتجاج کی کالیں دینے سے فرصت نہیں! عام آدمی کی زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے اور سیاسی جماعتیں سڑکوں پر تماشے لگا رہی ہیں، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے ہاں جمہوریت ہے اور جمہوریت میں ہر سیاسی جماعت کو احتجاج کا حق حاصل ہے مگر پارلیمنٹ میں مسائل حل ہو سکتے ہیں تو سڑکوں پر احتجاج کی کیا ضرورت ہے سیاسی جماعتوں کو ملک کو عدم استحکام کی طرف لے جانے سے پرہیز کرنا چاہیے اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ تشدد کیا جا رہا ہے مان لیا کہ تشدد بُری بات ہے مگر یہ بات بھی اپنی جگہ پر درست ہے کہ ریاستی اداروں کو بند گلی میں بھیجنا بھی غلط ہے اور یہ کوئی ملکی خدمات نہیں یہ کہاں کی سیاست ہے؟ اس وقت ملک میں سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے مگر اپوزیشن حکومت کو برداشت نہیں کر رہی اور ہر حال میں اس کا خاتمہ چاہتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکومت کو اسکی آئینی مدت پوری کرنے دی جائے اور اسکی راہ میں کانٹے بچھانے سے پرہیز کیا جائے سمجھداری کا تقاضا یہی ہے کہ ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈال کر ملک کی معیشت کو کمزور نہ کیا جائے اپوزیشن سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کیلئے پہل کرے تاکہ عالمی طور پر یہ پیغام جائے کہ پاکستان میں کسی قسم کا سیاسی عدم استحکام نہیں بلکہ صرف سیاسی اختلافات ہیں جن کو اسمبلی میں حل کرنے پر اتفاق پایا جاتا ہے اس اقدام سے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری سمیت دیگر مسائل بھی حل ہوں گے جمہوری نظام کے معاملے میں ہم دنیا سے بہت پیچھے ہیں ہمیں دنیا کی سیاست کو بھی سامنے رکھ کر احتجاج کرنا چاہیے کیونکہ دنیا بھر میں احتجاج کے لئے بھی کچھ اصول بنائے گئے ہیں بیرونی ممالک کی اپوزیشن حدود کراس نہیں کرتی اور یہی اصل جمہوریت ہے جس کو اپنا ناگزیر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں