52

سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنا ہو گا (اداریہ)

عام انتخابات کے بعد اتحادی حکومت کے قیام اور معاشی حالات کے بہتری کی جانب گامزن ہونے کے اشارے تو مل رہے ہیں مگر سیاسی درجہ حرارت میں کمی نہیں آ رہی جو اچھی علامت نہیں اپوزیشن اہم اداروں کو سیاست زدہ کرنے کی کوششیں کرنے میں مصروف ہے جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت تاحال ہائی ہے اور یہ صورتحال نہ جانے کب تک جاری رہے! لگتا ہے کہ بعض سیاسی شخصیات تہیہ کر چکی ہیں کہ ملک کو چلنے نہیں دینا، سب اپنی اپنی سیاست کو سامنے رکھتے ہوئے کام کر رہے ہیں پارلیمنٹ میں موجود افراد بیک وقت ریاستی اداروں کو سیاسی معاملات میں ملوث کر رہے ہیں کچھ ماضی کے واقعات کو یاد کرا رہے ہیں تو کچھ آج ریاستی اداروں کو مداخلت کے لیے اکسا رہے ہیں، سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ہر سیشن میں ہر روز ہر وقت الزامات لگتے ہیں ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہا جاتا ہے الزام تراشی ہوتی ہے ایسے معاملات جس کا عام آدمی کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے ان معاملات پر گھنٹوں تقاریر ہوتی ہیں، ملک کے کروڑوں افراد پارلیمنٹ سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں لیکن نہ انہیں ماضی میں اس پارلیمنٹ سے کچھ ملا ہے اور نہ ان دنوں امید ہے اور مستقبل بارے تو کچھ کہنا مشکل ہے اگر پارلیمنٹرینز کے طرز عمل پر غور کیا جائے تو یہاں اکثریت میں غیر سنجیدگی نظر آتی ہے جن لوگوں نے ملک وقوم کے مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے کام کرنا ہے انہیں خود کچھ علم نہیں کہ ووٹرز نے ان پر جو اعتماد کیا ہے اس پر کیسے پورا اترنا ہے انہیں خود یہ احساس نہیں ہے کہ ریاستی اداروں میں تنائو’ شدت اور عدم اعتماد کی فضاء سے سب سے زیادہ نقصان ریاست کا ہوتا ہے، پاکستان کروڑوں لوگوں کا ہے یہاں حکمران طبقہ ہر روز اداروں پر چڑھائی کرتا ہے، اس صورت حال میں گزشتہ چند برسوں میں تیزی آئی ہے خدانخواستہ یہ حالات برقرار رہے تو آنے والے دنوں میں مشکلات بڑھ سکتی ہیں ہر روز پریس کانفرنسز میں قوم کو الجھایا جاتا ہے کوئی اسٹیبلشمنٹ سے ناراض ہے کوئی عدلیہ پر چڑھائی کر رہا ہے کوئی پارلیمنٹ کو مسائل کی وجہ سمجھتا ہے یعنی ہر طرف مسائل ہی مسائل ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مسائل میں شدت آتی جا رہی ہے، اپوزیشن والے ہر وقت رونا دھونا کرتے ہیں، حکومت جواب دیتی رہتی ہے اور اس زبانی جنگ میں یہ سب کہتے ہیں کہ ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے مگراس کیلئے سنجیدہ کوئی نہیں نظر آ رہا اپوزیشن تو خاص طور پر حکومت کی راہ میں کانٹے بچھانے کیلئے ضد لگائے بیٹھی ہے، سیاسی عدم استحکام کے خاتمہ کی کوششیں رائیگاں جا رہی ہیں جب تک سیاسی استحکام نہیں ہو گا معاشی استحکام بھی نہیں ہو سکتا سرمایہ کاری کیلئے ماحول سازگار نہیں ہو گا تو غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں کیسے سرمایہ کاری کیلئے رضامند ہو گا جب تک اندرونی وبیرونی سرمایہ کار آگے نہیں آئیں گے ہم معاشی بحران سے نہیں نکل سکتے اداروں میں تنائو کی کیفیت ہے جب تک سیاسی قیادت ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کام نہیں کرے گی اس وقت تک بہتری کے آثار نظر نہیں آئیں گے، ملک کی ترقی کیلئے سٹیک ہولڈرز ایک پیج پر آئیں گے تو بات بنے گی، ملکی معیشت کو سنبھالنا ہے تو باہمی اختلافات کو ختم کرنا ہو گا سیاسی درجہ حرارت ملک وقوم کیلئے زہر قاتل ہے میں نہ مانوں والی بات پر اڑے رہنے والے سیاستدانوں کو اپنے اندر نرمی لانا ہو گی ورنہ ملکی ترقی وخوشحالی اور معاشی استحکام کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں