23

سیاسی’ عسکری قیادت کی واضح پالیسی (اداریہ)

وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان سرحد پار دہشتگردی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات جاری رکھے گا پاکستان کی افغان پالیسی قومی مفاد اور علاقائی امن کیلئے ہے جبکہ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی کی ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں’ طالبان ہمارے سکیورٹی اہلکاروں کی میتوں کی بے حرمتی کرتے ہیں ان سے مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں؟ سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا ہماری طالبان گروپوں سے لڑائی ہے۔ ٹی ٹی پی’ بی ایل اے اور دیگر تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں” افغان طالبان ایک طرف مذاکرات کی راہ اپنا رہے ہیں تو دوسری طرف دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں اصولی طور پر مذاکرات میں فریقین اپنے الزامات’ خدشات اور مطالبات سامنے رکھتے ہیں اور پھر ثالث دیکھتے ہیں کہ کون ٹھیک ہے کون غلط’ لیکن جب ایک فریق خود ہی دوسرے کے مطالبات کو درست مان رہا ہو اس پر عملدرآمد کی یقین دانی بھی کرا رہا ہو تو پھر مذاکرات کا ایسا ہی نتیجہ نکلتا ہے جو استنبول میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کا سامنے آیا، پاکستان کا افغانستان سے بڑا مطالبہ یہی رہا کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال نہ ہونے دی جائے پاکستان نے اس حوالے سے ناقابل تردید شواہد بھی پیش کئے جنہیں ثالثوں نے بھی تسلیم کیا اور پاکستان کے مطالبات کی تائید کی طالبان نے ان مطالبات کو درست مانا لیکن اپنی سرزمین سے دہشت گردی کی تحریری یقین دہانی کرانے میں ہچکچاہٹ دکھائی اور یہ بات ہی مذاکرات کو کسی نتیجہ پر پہنچنے میں رکاوٹ رہی پاکستان کی عسکری وسیاسی قیادت کی اس حوالے سے پالیسی بالکل واضح ہے کہ افغانستان دہشت گردوں کی سرپرستی چھوڑ دے اور کسی نتیجہ پر پہنچنے میں رکاوٹ رہی پاکستان کی عسکری وسیاسی قیادت کی اس حوالے سے پالیسی بالکل واضح ہے کہ افغانستان دہشت گردوں کی سرپرستی چھوڑ دے اور قیام امن کیلئے مثبت کردار ادا کرے مگر افغانستان بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھاتے ہوئے ان کی ہدایات پر عمل کر رہا ہے اور اسی وجہ سے دونوں ملکوں کے مابین ابھی تک کھینچائو کی سی کیفیت موجود ہے بھارت جو مئی کی جنگ کے بعد دنیا میں تنہائی کا شکار ہو چکا تھا اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طالبان سے راہ ورسم بڑھانے لگ گیا وہی بھارت جو 30 سال سے طالبان کو پاکستان کی پراکسی قرار دیتے ہوئے طالبان مخالف حکومت کی کارروائیوں میں مدد کرتا رہا اب انہی طالبان کو گلے لگانے کو تیار تھا اور طالبان بھی لاکھوں افغانوں کو دہائیوں تک پناہ دینے ان کی نسلوں کی میزبانی کے پاکستان کے احسانات یکسر فراموش کرتے ہوئے بھارت کے گلے لگنے کو تیار ہو گیا پاکستان سے جنگ ہارنے کے بعد بھارت نے اپنی بندوق چلانے کیلئے طالبان کا کندھا ڈھونڈ لیا جس کا پتہ استنبول مذاکرات کے دوران کابل سے ہدایات لینے سے لگا اور یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں کے مذاکرات بے نتیجہ رہے افغان طالبان یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ جنگ کے قابل نہیں ہیں لہٰذا ایسی صورت میں افغان طالبان کے حق میں یہ ہی بہتر ہے کہ وہ پاکستان کے مطالبات دل سے تسلیم کریں اور تحریری طور پر ضمانت دیں کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے،، پاکستان کی جانب سے پالیسی واضح ہے کہ دہشت گردی کو اب ختم کر کے دم لینا ہے ٹی ٹی پی’ بی ایل اے’ فتنہ الخوارج کو پاکستان کی سرزمین میں مزید دہشت گردی نہیں کرنے دی جائے گی اور اپنی سرزمین کو محفوظ بنانے کیلئے ہر حد تک جایا جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں