31

سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان ‘ آج سے با قاعدہ تفتیش کا آغاز

اسلام آباد (بیوروچیف)سابق وزیراعظم عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ سے گرفتار کرنے کی دیر تھی کہ ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ پھوٹ پڑا۔گذشتہ دو دنوں کے دوران مظاہرین نے سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا ہے جبکہ جلا گھیرا کے واقعات بھی پیش آئی۔ اس واقعات کے بعد پولیس نے نقضِ امن کے خدشات کے پیش نظر تحریک انصاف کی مرکزی قیادت بشمول شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چوہدری سمیت سینکڑوں کارکنوں کو حراست میں لے لیا ہے۔عمران خان کی گرفتاری اور اس کے بعد پیش آنے والے پرتشدد واقعات کے بعد سیاسی اور سماجی حلقوں میں اب یہ بحث کی جا رہی ہے کہ اس پورے معاملے میں کس جماعت کو کیا سیاسی فائدہ یا نقصان ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے سیاسی رہنماں، عسکری امور کے ماہرین اور تجزیہ کاروں سے بات کر کے اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کی ہے۔پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم)یعنی موجودہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے رہنماں کے مطابق یہ ایک قانونی معاملہ ہے اور اب عدالت کے فیصلے سے ہی معلوم ہو سکے گا کہ کس کو کیا فائدہ یا نقصان ہو سکتا ہے۔پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والی سینیٹر نزہت صادق نے بتایا کہ جب کوئی بھی شخص بشمول سیاسی رہنما کسی مقدمے میں تحقیقات کے لیے مطلوب ہوتا ہے تو قانون یہی کہتا ہے کہ اسے گرفتار کیا جائے اور تحقیقات کی جائیں، اس سے قطع نظر کہ اس پورے معاملے میں کس کا سیاسی فائدہ یا نقصان ہوتا ہے۔ان کے مطابق عمران خان ایک سیاسی لیڈر ہیں اور ان کی گرفتاری پر ردعمل تو آنا تھا مگر کسے فائدہ یا نقصان ہو گا اس بات کا انحصار اس نیب کیس کے نتیجے پر منحصر ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما حسن مرتضی نے بتایا کہ یہ ایک قانونی معاملہ ہے اس میں حکومت کا کسی قسم کا دخل نہیں ہے۔ ان کے مطابق عمران خان کرپشن کے ایک مقدمے میں گرفتار ہوئے ہیں جس سے حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں۔حسن مرتضی کے مطابق جس طرح تحریک انصاف نے احتجاج کیا اس سے سب کو پتا چل گیا کہ اس جماعت کے کارکنان کس قدر پرتشدد ہیں۔تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ پرتشدد مظاہروں میں ان کی پارٹی کے کارکنان ملوث نہیں تھے بلکہ یہ سب تحریک انصاف کے خلاف ایک سازش کے تحت کیا گیا تاکہ اس کا ملبہ عمران خان اور تحریک انصاف پر ڈالا جا سکے اور اس جماعت کو سیاسی طور پر نقصان پہنچایا جا سکے۔شاہ محمود کے مطابق انھوں نے اپنے کارکنان کو یہ واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وہ احتجاج ضرور کریں مگر پرامن رہیں تاکہ حکومت کو ان کے خلاف کارروائی کا کوئی بہانہ ہی نہ مل سکے۔عمران خان کی گرفتاری سے فائدہ یا سوال سے متعلق جواب میں تحریک انصاف کے وائس چیئرمین کا کہنا تھا کہ حکمرانوں نے ملک کو مزید سیاسی عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ان کے مطابق ملک میں معاشی بحران ہے، مہنگائی اور بے روزگاری ہے تو ایسے میں عمران خان کی گرفتاری سیاسی نادانی کا سوا کچھ نہیں ہے۔خیال رہے کہ شاہ محمود قریشی اس سات رکنی کمیٹی کے بھی چیئرمین ہیں جو عمران خان کی غیرموجودگی میں پارٹی کے امور سنبھالے ہوئے تھی تاہم اس کمیٹی کے بیشتر اراکین کو اب نقضِ امن کے تحت گرفتار کر لیا گیا ہے۔لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود نے بتایا کہ بظاہر اس پورے معاملے میں بڑا نقصان فوج اور ملک کا ہوا ہے۔ان کے مطابق پہلی بار عوام جی ایچ کیو اور فوجی رہائش گاہوں میں داخل ہوئے، جس وقت تک فوج سیاست میں مداخلت کرتی رہے گی تو بحران مزید بری صورت اختیار کرتے رہیں گے۔تجزیہ کار نسیم زہرہ نے بتایا کہ جو کچھ گذشتہ دو دنوں میں ہوا اس کے بعد اب تحریک انصاف احتساب عدالتوں سے نکل کر دہشتگردی کے مقدمات کا سامنا کرے گی۔ ان کے مطابق عمران خان کی گرفتاری ایک پیچیدہ معاملہ بن کر رہ گیا ہے کیونکہ ایک طرف الیکشن سے قبل عمران خان کو ہر صورت انتخابی دوڑ سے باہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور دوسری طرف خود عمران خان فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف ایک سخت مقف اختیار کیے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب عمران خان کے 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کے بعد نیب کی آج سے باقاعدہ تحقیقات کا آغاز۔عمران خان پر القادر ٹرسٹ زمین کے کیس میں مبینہ کرپشن کا الزام ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز القادرٹرسٹ کیس میں گرفتارعمران خان کو پولیس لائنزاسلام آباد میں قائم عدالت میں پیش کیا گیا، نیب نے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، تاہم عدالت نے سابق وزیراعظم کا 8 روز کا جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں نیب کی تحویل میں دیدیا، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اپنے خاص معالج ڈاکٹر فیصل کو بلانے کی استدعا کردی اور کہا کہ یہ ایک انجکشن لگاتے ہیں جس سے بندہ آہستہ آہستہ مرجاتا ہے، ڈرہے میرے ساتھ مقصود چپڑاسی والا کام نہ ہو۔قبل ازیں سابق وزیراعظم عمران خان کو سکیورٹی خدشات پر اسلام آباد پولیس ہیڈ کوارٹرز پہنچایا گیا، پی ٹی آئی چیئرمین کیخلاف کیسز کی سماعت کیلئے نیب کورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹ کو پولیس لائن میں شفٹ کردیا گیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں