9مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف سے پنچھیوں کی اڑان تاحال جاری اہم راہنمائوں کی پارٹی سے علیحدگی کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان بالکل تنہا ہو چکے ہیں ان میں اب پہلے جیسا دم خم بھی نہیں رہا ایک وقت تھا کہ ان کا طوطی بولتا تھا روزانہ انٹرویوز’ ٹویٹ’ ویڈیو پیغامات جاری ہوتے تھے لیکن اب ایسی خاموشی چھائی ہے کہ میڈیا میں ان کا ذکر بھی کم نظر آ رہا ہے جبکہ دوسری جانب سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی تیاریوں کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے نواز شریف لندن سے دبئی پہنچ چکے ہیں آصف علی زرداری نے دبئی میں ڈیرے ڈال لئے ہیں دونوں راہنمائوں کی ملاقات کا بھی امکان ہے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو دبئی پہنچنے پر متحدہ عرب امارات کی حکومت کی جانب سے خصوصی پروٹوکول فراہم کیا گیا نواز شریف دبئی میں 6 اہم ملاقاتیں بھی کریں گے ان کی جولائی کے پہلے ہفتے میں سعودیہ میں شاہی خاندان سے خصوصی ملاقاتیں طے ہیں قومی اسمبلی سے نااہلی کی سزا 5 سال کرنے کا بل اتفاق رائے سے منظور ہونے سے نواز شریف کے الیکشن لڑنے کی راہ بھی ہموار ہو گئی ہے نواز شریف کی وطن واپسی کیلئے روڈ میپ تیار کر لیا گیا ہے وزیراعظم شہباز شریف نے کمیٹی بنا دی جو نواز شریف کے عدالتوں میں جاری کیسز کی پیروی کو تیز کرے گی نواز شریف کی نااہلی اور دیگر کیسز کے خاتمے کیلئے کام میں تیزی لائی جائے گی جس میں کامیابی کے بعد نواز شریف وطن واپس آئیں گے،، اسلام آباد میں بھی سیاسی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں سب سے اہم نیوز نواز شریف کی وطن واپسی سے متعلق وہ لندن سے دبئی پہنچ چکے ہیں ان کی واپسی کے استقبالیہ پروگرام کیلئے آغاز کر دیا گیا ہے توقع کی جا رہی ہے کہ اسمبلی کی تحلیل سے قبل نواز شریف پاکستان میں ہوں گے تاہم اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ اہم کردار ادا کرے گا،، آصف علی زرداری اپنے سیاسی پتے ابھی شو نہیں کر رہے مگر بعض سیاسی حلقوں کے مطابق وہ اپنے فرزند کو وزارت عظمیٰ پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں اور اندر کھاتے وہ معاملات طے کرنے میں مصروف ہیں پیپلز پارٹی کی نجی محفلوں میں ڈسکس ہو رہی ہے کہ (ن) لیگ اپنی باری لے چکی اب وزارت عظمیٰ کیلئے پیپلزپارٹی کی باری ہے،، سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا بلکہ کچھ دو کچھ لو کے اصولوں پر سیاست چلتی ہے ممکن ہے اس وقت ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ پی پی پی وزارت عظمیٰ کی اہل قرار پا جائے پی ٹی آئی کو خیرباد کہنے والے سینکڑوں سیاسی راہنمائوں نے جہانگیر ترین کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے لیکن ابھی تک نئی سیاسی جماعت تحریک استحکام پاکستان کے خدوخال غیر واضح ہیں اور ان کا منشور وروڈ میپ سامنے نہیں آیا نہ ہی اس بارے کچھ واضح ہو رہا ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے گی! اس وقت حکومتی اتحاد میں دو جماعتیں سیاسی مقبولیت میں سرفہرست ہیں ایک مسلم لیگ (ن) اور دوسری پیپلزپارٹی دونوں جماعتوں کے قائدین کے فیصلوں کو پی ڈی ایم میں اہمیت حاصل رہی ہے آصف علی زرداری نے عمران خان کو اقتدار سے باہر کرنے کیلئے کامیاب حکمت عملی اپنائی اور اسے چلتا کر دیا یہ الگ بات ہے کہ وہ پنجاب میں پی ڈی ایم کے اقتدار کو دوام بخشنے میں کامیاب نہ ہو سکے اور پرویز الٰہی کو رام کرنے کی زرداری کی کوشش ناکام رہیں چوہدری شجاعت کو منانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا مگر پرویز الٰہی کو رام نہ کر سکے اور پنجاب پر راج کرنے کا خواب پورا نہ ہو سکا آصف علی زرداری اور ان کی پارٹی کے مرکزی قائدین کی کوشش ہے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کا راج ہو جائے مگر فی الحال تو پنجاب سے (ن) لیگ کو شکست دینا دشوار ہے نواز شریف کی آمد کے ساتھ ہی یہ پارٹی ایک بار پھر سے عروج پر پہنچ جائے گی کیونکہ نواز شریف کی عدم موجودگی میں پارٹی میں اختلافات پیدا ہونا شروع ہو گئے تھے مگر نواز شریف ناراض ساتھیوں کو منانے کا فن بخوبی جانتے ہیں اور جونہی وہ سیاست میں ان ہوئے ان کے تمام ساتھی ان کے گرد جمع ہو جائیں گے اور جب ان کی سیاسی قوت میں اضافہ ہو گا تو (ن) لیگ کو شکست دینا خاصا مشکل ہو گا لہٰذا زرداری کی خواہش شائد پوری نہ ہو سکے دبئی میں آصف علی زرداری اور نواز شریف کی ملاقات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر دونوں مل بیٹھتے ہیں تو ان کا سیاسی فیصلہ کیا ہو گا؟ بہرحال دونوں سیاسی قائدین سیاست کے کنگ ہیں اور ایک دوسرے کے دائو پیچ سے خوب واقف ہیں نواز شریف 3مرتبہ وزیراعظم کے عہدہ پر فائز رہ چکے ہیں زرداری بھی صدارت کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں موجودہ سیاسی حالات میں عام انتخابات میں اترنے کیلئے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں اس کیلئے انتظار کرنا ہو گا۔
33