10

شعبہ توانائی عوام کیلئے عذاب بن چکا (اداریہ)

وزیرتوانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ حکومت ملک میں چینی بجلی گھر چلانے والی کمپنیوں سے اسی ماہ کہہ دے گی کہ وہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں میں درآمدی کے بجائے بتدریج تھر کے خطے سے نکالا جانے والا مقامی کوئلہ استعمال کریں، وفاقی وزیر توانائی نے کہا کہ اس سے درآمدات پر لاگت کی مد میں پاکستان کو سالانہ 200ارب کی بچت ہو گی بجلی کی پیداواری لاگت کم ہو گی’ ملکی صارفین کے لیے بجلی کی فی یونٹ قیمت بھی کم ہو جائے گی انہوں نے کہا امید ہے ایسا کرنے سے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں ڈھائی روپے تک کمی لائی جا سکے گی” شکر ہے کہ وزیر توانائی کو اپنے شعبے کی اصلاح کا خیال تو آیا مگر یہ خیال بہت تاخیر سے آیا ہے غضب خدا کا شعبہ توانائی تو عوام کیلئے عذاب کی حیثیت اختیار کر چکا ہے آئی پی پیز نے گردشی قرضے ملکی معیشت کو جونک بن کر چمٹے ہوئے ہیں اور ان گردشی قرضوں کے باعث بجلی کے نرخوں میں دو ماہ کے دوران ناقابل برداشت بوجھ عوام پر ڈالا جا چکا ہے غریب اور متوسط طبقے کے لئے بجلی بلوں کی ادائیگی مشکل ہو گئی ہے بجلی کی لاگت 8سے 10روپے فی یونٹ ہے جبکہ ڈسکوز کے اخراجات 5روپے اور کیپسٹی سرچارج 18روپے فی یونٹ ہیں ہم آئی پی پیز کو بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی مد میں اربوں روپے کی ادائیگیاں کر رہے ہیں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے بجلی گھر حب کول، ساہیوال کول اور بن قاسم کول گزشتہ دو سال سے بند پڑے ہیں لیکن حکومت انہیں بھی 60فی صد کیپسٹی سرچارج کی ادائیگی کر رہی ہے جو گردشی قرضوں میں تیزی سے اضافہ کی وجہ ہے 1991ء میں پاکستان کی 60فی صد بجلی ہائیڈرو سے پیدا کی جاتی تھی جو اب کم ہو کر 26فی صد رہ گئی ہے اور ہم آہستہ آہستہ مہنگے امپورٹڈ فیول سے بجلی پیدا کرنے والے آئی پی پیز کے چنگل میں پھنس چکے ہیں جس کے بجلی کے نرخ عوام اور انڈسٹری برداشت نہیں کر سکتے پاکستان میں مہنگے ایندھن سے پیدا کی جانے والی بجلی کی اوسطاً لاگت خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے، بجلی کی فی یونٹ قیمت اتنی بڑھ چکی ہے کہ عام آدمی اپنی آمدن کا نصف حصہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی پر خرچ کرنے پر مجبور ہے ملک کی معاشی صورتحال پہلے ہی کمزور ہے گھریلو صارفین سراپا احتجاج ہیں تو دوسری طرف صنعتکار اور سرمایہ کاروں نے بھی بجلی کی بے انتہا بڑھتی ہوئی قیمتوں پر آواز اٹھانا شروع کر دی ہے، مہینے میں کئی بار ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کے فی یونٹ کی قیمت بڑھائی جا رہی ہے ایسے میں ہماری مصنوعات عالمی مارکیٹ میں کیسے مقابلہ کر سکتی ہیں، ترقی یافتہ دنیا کم قیمت پر بجلی تیار کرتی ہے تاکہ پیداواری لاگت کم سے کم ہو ہمارے ہاں الٹا حساب ہے کہ مہنگی بجلی پیدا کر کے پیداواری لاگت آسمان پر پہنچا دی گئی ہے حکومت نے آئی پی پیز کو سرمایہ کاری پر منافع کی ادائیگی ڈالر کی شکل میں کرنے کی ضمانت دی ہوئی ہے جو انتہائی غیر مناسب اور غیر منصفانہ ہے یہی وجہ ہے کہ ماضی میں جب یہ معاہدے ہوئے تو ڈالر 115روپے کا تھا اب 280روپے کا ہے اس حساب سے آئی پی پیز کا منافع کئی گنا بڑھ گیا ہے اور بیشتر آئی پی پیز تو ایسی ہیں جنہوں نے اپنی لگائی گئی سرمایہ کاری بشمول منافع کی رقم نکال چکے ہیں اور اب کئی گنا منافع اور کیپسٹی چارجز کی مد میں رقم وصول کر رہے ہیں جو غریب عوام کی ٹیکس کی رقم سے ادا کئے جا رہے ہیں اس کا اثر انڈسٹری پر بھی پڑ رہا ہے کاروباری طبقہ بجلی کے بڑھتے نرخوں اور کیپسٹی چارجز سے الگ پریشان ہے ہماری برآمدات پہلے ہی اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہیں اب بجلی کے بڑھتے نرخوں اور کیپسٹی چارجز کے باعث مزید تنزلی کی طرف جا رہی ہے اگر حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں جاری بے چینی پر قابو پایا جائے تو حکومت کو عوام کو انڈسٹری مالکان کیلئے قابل قبول فیصلے کرنا ہوں گے، سستی بجلی کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈیم بنانے ہوں گے آئی پی پیز سے کئے جانیوالے مہنگے معاہدے منسوخ کرنا ہوں گے ورنہ ملک کی مشکلات بڑھتی جائیں گی جو اسکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہیں ملک کی انڈسٹری زبوں حالی کا شکار ہے اس کو بچانے کیلئے فوری فیصلے ناگزیر ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں