1

شعوری احساس کیا ہے

انسان کائنات کا ایک اہم کردار ہے اور اس کائنات کو خوبصورت بنانے میں اس نے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی حقیقت اور سچائی ہے لیکن اس بات کا ہم کو پوری طرح شعوری احساس نہیں ہے۔ شاید ہمیں تو شعوری احساس نام کی چیز کا بھی پورے طور پر شعوری احساس نہیں ہے۔ شعور کیا چیز ہے اس بات کا بھی ہمیں آج تک اچھی طرح نہیں بتایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم چیزوں کو سطحی طور پر لیتے ہیں اور ہر چیز کا طائرانہ جائزہ لے کر آگے دوڑ پیچھے چوڑ کی مثال بن جاتے ہیں۔ جب ہم کہیں کے نہیں رہتے ہیں تو پھر گلے شکوے اور دوش۔ گوش بر آواز کے بارے میں ہی جان جاتے تو کم از کم نئی خبر سننے کے لئے بے تاب اور منتظر ہوتے۔ انتظار اور وہ بھی بیتابی سے۔ اس کا ایک اپنا مزہ بھی ہے اور فائدہ بھی ہے اگر کسی کو شک ہو تو وہ ایسا کر کے دیکھ لے۔ یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ ایسا کرنے کی ضرورت ہے البتہ ایسا ویسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے اور باپ کا پتہ بھی لگانے کی ضرورت ہے۔ ہم نے تاحال یہ جاننے کی بھی کوشش نہیں کی ہے کہ ہم سب کی بنیادی ضرورت کیا ہے اور اس ضرورت کے حصول کے لئے ہم کو کہاں تک جانا ہے اور ہمارا ٹارگٹ کیا ہے۔ ٹارگٹ کرنے سے ہی منزل ملتی ہے اور منزل پر پہنچ کر دم لینے والوں کے چہرے ہشاش بشاش اور تروتازہ ہوتے ہیں جبکہ راستے میں سوجانے والے آنکھیں ملتے رہتے ہیں اور منزل ان سے دور بلکہ بہت ہی دور ہوجاتی ہے۔ دوری خواہ وطن سے ہو یا محبوب سے ہو اس کی شدت کو محسوس کیا جا سکتا ہے یہ ناقابل بیان ہے۔ ہمارے ہاں بیان سننے کا بھی بڑا رجحان ہے اور بیان سن کر نعرے لگانا ہمارا شوق ہے جبکہ بیان کئے گئے اصولوں پر ہم نے کبھی توجہ نہیں دی ہے اور عمل کرنا تو دور کی بات ہے۔ اسی لئے توجہ دلاو نوٹس کی ضرورت پڑتی ہے اور بالآخر یہ نوٹس بھی شور شرابے کی نذر ہوجاتا ہے۔ شور شرابہ اور چیز ہے اور شورا اور شوربہ اور چیز ہے لیکن شور شرابے کی بنیادی وجہ شورا اور شوربہ ہی ہوتی ہے اس لئے شورے اور شورابے سے ہمیں مکمل طور پر توبہ کر لینا ہوگی۔ توبہ کی تو ہمیں بہت ہی ضرورت ہے اور مزے کی بات ہے کہ توبہ کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں ہم ہیں کہ اگلا گھر دیکھ کر ہی توبہ کرتے ہیں اس میں ہمارا ویسے قصور نہیں ہے ہمارے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام نے بھی زمین پر پہنچ کر ہی پہلے اقبال جرم کیا تھا اور پھر توبہ کی تھی دیر آید درست آید۔ پھر تو توبہ کے دروازے ان پر یک لخت ہی کھل گئے تھے اور توبہ کرنے میں ہی عافیت ہے۔ عقلمند کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ ابلیس سمجھ سمجھ کر بھی سمجھنے سے قاصر رہا اب ہر وقت ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے اس کی اپنی تو مت ماری ہی گئی ہے وہ تو بے شمار انسانوں کی بھی مت مار رہا ہے۔ ایسے تو نہ ارشاد ربانی ہوتا ہے کہ انسان خسارے میں ہے اور انسان عجلت میں ہے۔ عجلت میں کئے گئے کام ادھورے ہوتے ہیں اور ایسی صورت میں آگے چل کر لینے کے دینے پڑجاتے ہیں۔ لینے دینے سے بات بالکل ہی بگڑ جاتی ہے بلکہ بات بہت ہی آگے نکل جاتی ہے اور واپسی کے راستے بند ہوجاتے ہیں۔ انسان ہونے کا عملی ثبوت یہ ہے کہ بند راستوں کو کھولا جائے تاکہ ہوا کے تازہ جھونکے آئیں ۔ ہوا کے تازہ جھونکوں کے ہم ویسے بھی محتاج ہیں کیونکہ ہمارے جسم کو آکسیجن کی ضرورت ہے اور آکسیجن سے خون کے بہائو کو مسلسل بنایا جاتا ہے۔ خون جب ہمارے سر میں پہنچتا ہے تو ہماری عقل ٹھکانے آتی ہے اور ہم کو احساس زیاں ہوتا ہے اور ہمیں بھولی بسری چیزیں یاد آجاتی ہیں۔ بلاشبہ ہم بھلن ہار ہیں۔میری ایک کتاب کا نام بھی بھلن ہار ہے۔ معروف دانشور مجیب الرحمان شامی نے جب میری مذکورہ کتاب میں میرا یہ شعر پڑھا(ربا پچھلی گل بھلا دے۔۔۔ بھلن ہار ساں بھل گئے آں) تو ان پر بظاہر ایک خاص کیفیت طاری ہو گئی تھی اور انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں فرمایا تھا کہ پاکستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر ہم سب کو یہ شعر پڑھ کر اپنے رب سے معافی مانگنا ہوگی۔ شعر شعور بیدار کرنے کے لئے اساسی کردار ادا کرتے ہیں۔ محترم مجیب الرحمن شامی تو درد دل رکھنے والے انسان ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر قوم کو دعوت فکر دیتے ہیں تاہم ہم ہیں کہ سوشل میڈیا ہمارا اوڑھنا بچھونا بن گیا ہے اور وہاں ہر کسی کی لے دے ہورہی ہے اور ہم سب لے دے کے مکمل طور پر کنفیوز ہورہے ہیں۔ بات کے بتنگڑ اور آرٹیفیشیل انٹیلیجنس۔ بات کبھی سر کے اوپر سے گزر جاتی ہے اور کبھی سر میں گھس کر انسانی جبلت کی ہیئت ہی بدل دیتی ہے۔ یوں انسان اور حیوان محمود وایاز کی طرح ایک ہی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایسی صف بندی سے تو بہتر ہے کہ دونوں متذکرہ بالا اصناف کی نس بندی کردی جائے۔ کاش ہم سب کو بھائی بندی کے فائدے پڑھا دیئے جاتے۔ حضرت اقبال نے تو ہماری تربیت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور آج سے کئی سال پہلے فرما دیا تھا( اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں۔۔۔۔تو ہندوستاں کا ہر پیر و جواں بے تاب ہو جائے) اب صورت حال بالکل ہی بدل چکی ہے۔ کابل والے ہمارے خون کے پیاسے ہیں اور ہمیں مارنے کے درپے ہو چکے ہیں اور غیروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور ان کو بھی اس بات کو شعوری احساس نہیں ہے کہ یہ کھیل ان کو بہت مہنگا پڑے گا اور یہ کھیل کابل والوں کو اور ان کے دوستوں کو کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔ ان کے دوست تو اس بات کا کافی حد تک پہلے ہی مزہ چکھ چکے ہیں اور ابھی تک سکتے میں ہیں ۔ ان کی ناک کٹ چکی ہے۔ ہاتھ پائوں منجمد ہو چکے ہیں اور ان کو سر چھپانے کے لئے دنیا کے کسی کونے کھدرے میں جگہ نہیں مل رہی ہے۔ سر منڈھاتے ہی اولے پڑے اور اولوں نے ہندوستان کا بھرکس نکال دیا ہے۔ اب بات کرتے ہیں مذکورہ شعر میں پیر اور جوان کے بارے میں جن سے اقبال کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ یہ دونوں طبقات کوراہے پڑ چکے ہیں اور بھاگم بھاگ۔ کہاں جانا ہے اللہ جانے اور اس کا کام جانے۔ تعلیم وتربیت اور ان دونوں کے حصول کی ضرورت کا شعوری احساس۔ شعوری احساس اور بس شعوری احساس۔ بلکہ ہمارے سارے مسائل کا حل ہی اس میں پنہاں ہے کہ ہمیں شعوری احساس نام کی چیز کا شعوری احساس دلایا جائے۔ پھر شور شرابے، رولے گھولے ، گلے شکوے، مایوسی ویوسی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زمین بوس اور ایک نئی صبح کا آغاز۔ ویسے تو دانائی کا تقاضا ہے کہ ہر صبح کو ایک نئی صبح سمجھا جائے اور اپنوں کو اپنا سمجھ کر اپنائیت، محبت اور اخلاص کی بنیاد پر معاملات طے کئے جائیں۔ اور طے کر لیا جائے کہ پاک سر زمین ہماری ماں ہے اور ماں کو بیچنے والے کو کیا کہتے ہیں۔
قارئین بتائیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں