27

شوگر سیکٹر کو ڈی ریگولیٹ کرنیکا حکومتی فیصلہ (اداریہ)

وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ شوگر سیکٹر کو مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کر دیا جائے گا، مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے وفاقی وزیر خزانہ اور وزارت خزانہ کے حکام کو شوگر سیکٹر میں کمپٹیشن کے فروغ کے چیلنجز پر بریفنگ گزشتہ روز ہونے والی اس اہم بریفنگ میں وزیرخزانہ کے مشیر خرم شہزاد کے علاوہ مسابقتی کمیشن کے رجسٹرار شہزاد حسین’ لیگل ایڈوائزر حافظ نعیم اور کارٹلز ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر سلمان ظفر بھی موجود تھے چیئرمین ڈاکٹر کبیر سدھو نے وزیر خزانہ کو بتایا کہ مسابقتی کمیشن شوگر سیکٹر اصلاحتی کمیٹی کی معاونت کیلئے تفصیلی سفارشات مرتب کر رہا ہے، ذرائع کے مطابق مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو چینی بحران کی وجوہات پر بریفنگ میں بتایا کہ شوگر ملز نے ایڈوائزری بورڈ میں چینی کے دستیاب سٹاک اور گنے کی پیداوار کا غلط ڈیٹا فراہم کیا جس کے باعث شوگر ایڈوائزری بورڈ کی جانب سے گزشتہ سال حکومت کو درست تخمینہ فراہم نہیں کیا جا سکا غلط تخمینوں کی بنیاد پر چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی وزیرخزانہ کی زیرصدارت اجلاس کے دوران چیئرمین سی سی پی ڈاکٹر کبیر سدھو نے چینی بحران کی وجوہات پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ چینی کی برآمدات سے ملک میں چینی کے ذخائر ضرورت سے کم ہو گئے تھے شوگر ایڈوائزری بورڈ نے گزشتہ سال جون سے اکتوبر کے دوران گنے کی پیداوار’ دستیاب سٹاک اور چینی کی پیداوار سے متعلق حکومت کو درست تخمینہ نہیں بتایا تھا غلط تخمینوں کی بنیاد پر حکومت نے برآمد کی اجازت دی تھی فیصلہ سازی شوگر ملز ایسوسی ایشن کے فراہم کردہ ڈیٹا بیس کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے فیصلہ سازی کیلئے آزادانہ اور شفاف ڈیٹا حاصل کیا جائے کمپٹیشن حکام نے ماضی میں 2008-09، 2015-16، 2019-20 کے چینی کے بحرانوں کی وجوہات اور اس حوالے سے کمیشن کی تحقیقات’ نتائج اور کمیشن کے اقدامات سے آگاہ کیا، انہوں نے وزیر خزانہ کو بتایا کہ کمپٹیشن اپیلیٹ ٹربیونل نے 2021 کے شوگر کارٹل کیس میں کمیشن کے فیصلہ کو دوبارہ سماعت کے لیے کمیشن کو بھجوایا، اس حوالے سے کمیشن نے سماعت کو جلد مکمل کرنے کیلئے حکمت عملی بنائی ہے۔ وفاقی وزیر نے صارفین کے تحفظ’ مارکیٹس میں شفافیت اور معاشی ترقی کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کمپٹیشن کے مختلف علاقوں میں زیرالتواء مقدمات کی جلد ازجلد سماعت کیلئے حکومت کی حمایت کا یقین دلایا اجلاس میں چینی کے شعبہ کے قانونی’ انتظامی اور ریگولیٹری معاملات کو بھی زیرغور لایا گیا علاوہ ازیں مسابقتی کمیشن کو مزید مضبوط بنانے اور صارفین کے تحفظ’ آزادانہ تجارت اور مارکیٹس میں مسابقت کو فروغ دینے کیلئے تجاویز پر بھی غور کیا گیا،، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا شوگر سیکٹر کو مکمل ڈی ریگولیٹ کرنے کا عندیہ خوش آئند ہے اس کے نتائج کیا نکلیں گے فی الحال اس بارے کچھ کہنا قبل ازوقت ہے، یہ بات سب جانتے ہیں کہ شوگر ملوں کے بارسوخ مالکان پچھلے کئی عشروں سے چینی کی قیمتوں میں من مانے اضافے کیلئے مصنوعی قلت پیدا کرنے کا حربہ آزماتے چلے آ رہے ہیں، موجودہ دور میں یہ کھیل سابقہ دور حکومت ہی کی طرح کھیلا گیا قوم کو ملک میں چینی کے وافر ذخائر کی خوشخبری سنا کر بھاری مقدار میں چینی برآمد کی گئی پھر مبینہ طور پر ذخیرہ اندوزی کر کے چینی کی شدید قلت کا تاثر عام کیا گیا اور یوں قیمتیں بڑھانے کی راہ ہموار کی گئی اس کھیل کا نتیجہ یہ ہے کہ چار پانچ سال پہلے جو چینی سو روپے فی کلو سے بھی کم میں باآسانی دستیاب تھی وہ اب 200 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے حالانکہ حکومت اور مل مالکان کے درمیان ملک بھر میں 165 روپے فی کلو کا معاہدہ طے پا چکا ہے مگر معاہدہ پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، آڈیٹر جنرل پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں تصدیق کر چکے ہیں کہ شوگر مل مالکان نے قیمتوں میں اتار چڑھائو اور برآمدی پالیسیوں سے بڑے اور برآمدی پالیسیوں سے بڑے پیمانے پر فائدہ اٹھایا جس کے بعد کچھ مل مالکان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں بھی ڈالے گئے تھے اس تناظر میں یہ تحقیقات خوش آئند ہیں بشرطیکہ ماضی کی طرح بے نتیجہ نہ رہے اور مسئلہ مستقل طور پر حل ہو سکے،، چند سالوں سے چینی کا مصنوعی بحران پیدا کر کے قوم کی جیبوں سے اربوں روپے نکلوانے کا سلسلہ چل رہا ہے پہلے چینی کی برآمد کی اجازت مل جاتی ہے مگر بعد میں چینی کی قلت ظاہر کر کے باہر سے درآمد کرانے کی باتیں ہوتی ہیں حکومتی ادارے مل مالکان پر الزام دھرتے ہیں کہ انہیں صحیح اعداد وشمار نہیں فراہم کئے گئے جبکہ مل مالکان اور ذخیرہ اندوز اپنے کام میں مصروف رہ کر اپنی تجوریاں بھرتے رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلے کا پائیدار حل تلاش کیا جائے تاکہ یہ کھیل بار بار نہ کھیلا جا سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں